Visitors at a degenerate art exhibition

"زوال پذیر" فن ("Degenerate" Art)

نازی قائدین نے جرمنی کو نہ صرف سیاسی بلکہ ثقافتی طور پر بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ حکومت نے فن کی اس قسم کو محدود کردیا جسے تیار، نمائش اور فروخت کیا جا سکتا تھا۔ 1937 میں نازی پروپیگنڈا کے وزیر جوزف گوئبلز نے عوام کو فن کی وہ شکلیں دکھانے کا منصوبہ بنایا جنہیں حکومت ناقابل قبول سمجھتی تھی۔ انہوں نے نام نہاد "زوال پذیر" فن کی ضبطی اور نمائش کا اہتمام کیا۔

اہم حقائق

  • 1

    نازی حکومت نے جرمنی کے معاشرے اور ثقافت کو کنٹرول کرنے اور تشکیل دینے کے لیے وسیع کوششوں کی قیادت کی۔ اس نے مختلف قسم کے فن جدید اور فنکاروں کو ناقص اور غیر اخلاقی خیال کیا۔ حکومت نے اس فن کو "زوال پذیر" قرار دیا۔

  • 2

    1937 میں نازیوں نے جرمنی کے عجائب گھروں سے ہزاروں جدید فن پارے ضبط کر لیے۔ انہوں نے میونخ میں "زوال پذیر فن" کی نمائش میں بہت سے فن پاروں کو ڈسپلے کیا۔

  • 3

    نازیوں نے کئی ہزار ضبط شدہ فن پاروں کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے حکومت کو مالا مال کرنے اور جنگ کی تیاری کے لیے بہت سے بیش قیمتی فن پاروں کو فروخت کر دیا۔

جرمنی کی ثقافت کی نازی سازی

نازی پارٹی کے 1933 میں اقتدار سنبھالنے پر اس کے قائدین نے جرمنی کی سیاست، معاشرے اور ثقافت کو نازی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی مہم شروع کی۔ نازی سازی کا یہ عمل وسیع پیمانے پر ہوا تھا۔ اس کوشش کو Gleichschaltung کے نام سے جانا جاتا ہے، جو جرمن لفظ "coordination" (معاونت) یا "synchronization" (ہم آہنگی) ہے۔

نازی حکومت نے ہر قسم کی تنظیموں کو ختم کر دیا۔ اس نے ان گروپوں کو ریاستی سرپرستی میں نازی کی پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن، طلباء کی لیگز اور اسپورٹس اور میوزک کلبوں میں بدل دیا۔ رکنیت حاصل کرنے کے لیے کسی شخص کے لیے سیاسی طور پر قابل اعتماد شہری ہونا اور "آریائی" نسب ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے تھا۔ باقی سبھی کو ان گروپوں اور تیزی سے جرمن معاشرے کے باقی حصوں سے نکال دیا گیا۔

ستمبر 1933 میں نازیوں نے مملکتی ایوان ثقافت (Reich Chamber of Culture) قائم کیا۔ چیمبر نے جرمنی میں فن، موسیقی، فلم، تھیٹر، ریڈیو اور تحریر کی پروڈکشن کی نگرانی کی۔ نازیوں نے جرمن معاشرے کے ہر پہلو کو شکل دینے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ فن معاشرے کی اقدار کی وضاحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نازیوں کا خیال تھا کہ فن کسی ملک کی ترقی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ فن پر باضابط کوششوں میں کئی سرکردہ قائدین شامل ہو گئے۔ انہوں نے "خطرناک" فن پاروں کی شناخت کرنے اور ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی کیونکہ وہ اس بات کی وضاحت کرنے میں جدوجہد کر رہے تھے کہ "حقیقی جرمن" فن کیسا نظر آتا ہے۔

نازی سازی اور فن

نازیوں نے جدید فن کو جمہوریت اور امن پسندی سے جوڑا۔ جرمنی میں جدید فن کا استقبال ماضی کی حکومتوں کے دور میں مختلف تھا۔ قیصر ولہیلم II کی حکومت (‎1888-1918) میں، ملک میں ایک قدامت پسند سماجی ماحول تھا۔ ایونٹ-گارڈ فن کو وسیع پیمانے پر نہیں سراہا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی پر ایک جمہوری حکومت جمہوریہ ویمار (1918-1933) کی حکومت تھی۔ ملک نے زیادہ آزاد خیال ثقافتی ماحول دیکھا۔ اظہاریت جیسے فن جدید کے طرز کو زیادہ گرمجوشی کے ساتھ قبول کیا گیا۔ نازی قائدین نے اس بات پر زور دیا کہ ایونٹ-گارڈ فن جرمنی کی جنگ کے بعد کی جمہوریت کی مبینہ بدنظمی، زوال اور امن پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔

نازیوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ فن جدید کے ابہام میں یہودی اور کمیونسٹ اثرات شامل ہیں جو "عوامی سلامتی اور نظم و نسق" کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ فن جدید نے "ثقافتی بالشیویت" کے ذریعہ جرمنی کے معاشرے کو کمزور کرنے کی سازش کی۔ نازی نظریے کے مطابق، صرف جرائم پیشہ ذہن کے لوگ ہی اس طرح کے نام نہاد نقصان دہ فن کی تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نازیوں نے اس فن کو "زوال پذیر" قرار دیا۔ انہوں نے اس اصطلاح کا استعمال یہ تجویز کرنے کے لیے کیا کہ فنکاروں کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں میں انحطاط ہونا چاہیے۔ اس وقت "زوال پذیر" کو بڑے پیمانے پر جرائم کاری، بداخلاقی اور جسمانی اور ذہنی معذوریوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

فن کی وضاحت اور اسے کنٹرول کرنے کی مہم قائدین کے مابین اختلافات کی وجہ سے تشکیل دی گئی تھی۔ اہلکاروں نے پارٹی اور حکومت کے اندر اثر و رسوخ کے لیے مقابلے میں حصہ لیا۔ اس معاملے میں چیف نازی مفکر الفریڈ روزن برگ کا پروپیگنڈا کے وزیر جوزف گوئبلز کے ساتھ جھگڑا ہوا۔ گوئبلز نے مملکتی ایوان ثقافت کی قیادت کی۔ بطور نوجوان، انہوں نے معروف ایونٹ گارڈ جرمن فنکاروں کی تعریف کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ "نارڈک اظہاریت" کی ایک شکل فن کے لیے سرکاری نازی طرز بن سکتی ہے۔ روزنبرگ نے ایک زیادہ قدامت پسند دھڑے کی قیادت کی جسے کمبیٹ لیگ فار جرمن ثقافت کہا جاتا ہے۔ یہ کوشش ایڈولف ہٹلر کے ذوق سے زیادہ مطابقت رکھتی تھی۔ ہٹلر نے مصوری، مجسمہ سازی اور فن تعمیر کے زیادہ حقیقت پسندانہ اور کلاسیکی انداز کو ترجیح دی۔ گوئبلز نے ہٹلر کے ذوق کے مطابق روزنبرگ کے ساتھ یہ مقابلہ جیتا۔

 "زوال پذیر" فن کی نمائشیں

حکومت کے پہلے مہینوں میں کچھ عہدیداروں نے فن کے بارے میں قیادت کے مبہم بیانات کی تشریح کرنے کی ذمہ داری لی۔ 1933 کے موسم بہار میں مقامی حکام نے نام نہاد "ہولناک چیمبرز" اور "شرم کی نمائشیں" کھولنا شروع کیں۔ ان کوششوں کا مقصد فن جدید کا مذاق اڑانا تھا۔ ستمبر میں ڈریسڈن میں "زوال پذیر فن" کے نام سے ایک مقامی نمائش کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک درجن جرمن شہروں میں نمائش منعقد ہوئی۔ ملک بھر میں کیوریٹرز نے عجائب گھروں سے ایونٹ گارڈ کاموں کو ہٹا کر اسٹوریج میں رکھ دیا۔ فنکارانہ آزادی پر یہ ابتدائی حملے بنیادی طور پر منظم نہیں تھے جس کے نتیجے میں، "اچھے" اور "برے" فن کی نازی تعریفات سالوں تک غیر واضح رہیں۔   

Art handlers with a confiscated artwork by Emil Nolde

شلوس Niederschoenhausen اسٹوریج ڈپو میں آرٹ ہینڈلرز ایمل نولڈے کے ضبط شدہ "Das Leben Christi" 1937 کا ایک حصہ پکڑے ہوئے۔ نازی حکومت نے اس کام کو "زوال پذیر" فن کے طور پر ضبط کر لیا تھا۔

کریڈٹس:
  • US Holocaust Memorial Museum, courtesy of bpk-Bildagentur

حکومت نے 1937 کے موسم گرما میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ "حقیقی جرمن فن" کیسا نظر آتا ہے۔ اس وقت میونخ میں پہلی سالانہ عظیم جرمن فن کی نمائش کی شروعات ہوئی۔ ہٹلر نے منتخب فن پاروں کی نمائش سے ایک ماہ پہلے ان کا جائزہ لیا۔ اس نے غصے سے جرمنی کے ایونٹ-گارڈ فن کی بہت سی مثالوں کو ہٹانے کا حکم دیا۔ گوئبلز نے اس اشتعال انگیزی کو دیکھا اور جلد بازی میں ایک علیحدہ نمائشی منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔ ان کا ارادہ فن کی ان اقسام کی وضاحت کرنا اور مذاق اڑانا تھا جنہیں حکومت "زوال پذیر" سمجھتی تھی۔ ہٹلر نے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ نازیوں نے جرمنی کے عجائب گھروں سے ہزاروں فن پارے ضبط کرنا شروع کر دیے۔

تین ہفتوں سے بھی کم عرصے میں "زوال پذیر فن" کی نمائش کو ایک ساتھ کھول دیا گیا تھا۔ اسے میونخ میں عظیم جرمنی کے فن نمائش کے ایک دن بعد ایک تنگ، جدید گیلری کی جگہ میں کھولا گیا۔ اس فن کی مبینہ نقصان دہ اور بدعنوانی والی نوعیت کی وجہ سے نابالغوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

نمائش کے منتظمین نے جان بوجھ کر ناگوار طریقے سے 600 سے زائد فن پاروں کا اہتمام کیا۔ انہوں نے مجسموں اور گرافک والے کاموں کو ایک ساتھ جمع کیا۔ پینٹنگز کو چھت سے لمبی ڈوریوں کے ذریعے لٹکایا گیا تھا اور ان کے درمیان بہت کم جگہ تھی۔ یہاں تک کہ بہت سے ورکس پر فریم نہیں لگے تھے اور اس پر غلط لیبل لگا ہوا تھا۔ دیواروں پر لکھے گئے نعروں میں فن پاروں کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا "ہر قیمت مخبوط الحواس (crazy at any price)" اور "بیمار دماغ فطرت کو کس طرح سے دیکھتا ہے (how sick minds viewed nature)۔" دیواروں پر ہٹلر اور گوئبلز کے اقتباسات بھی آویزاں تھے۔ ان کے الفاظ نے عوام کو آرٹ کے مقصد کے بارے میں نازی پارٹی کے سرکاری خیالات فراہم کیے۔

منتظمین نے فن پاروں کی تعریف کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے بہت حد تک کام کیا۔ اس کے باوجود عوام کی حاضری تمام توقعات سے تجاوز کر گئی۔ ایک اندازے کے مطابق 1937 میں 2 ملین سے زیادہ لوگ اس تنگ جگہ سے گزرے تھے۔ اس کے برعکس اس کے آس پاس عظیم جرمنی کے فن نمائش کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا تھا اور ایک کشادہ نئی عمارت میں منعقد کیا گیا تھا۔ پھر بھی، 500,000 سے بھی کم زائرین اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

میونخ میں نومبر کے آخر میں "زوال پذیر فن" کی نمائش بند ہو گئی۔ اس کے بعد ایک سفری ورژن نے جرمنی کے دوسرے بڑے شہروں کا دورہ کیا۔

ضبط شدہ فن پاروں کو ٹھکانے لگانا

نازیوں نے 1937 میں جلد بازی میں فن جدید کے 20,000 سے زیادہ فن پاروں کو ضبط کرنا شروع کیا۔ اس وقت انہوں نے کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی کہ اس فن کا کیا ہو گا۔ ایک سال بعد نازیوں نے ضبط شدہ فن کی فروخت کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک قانون کی منظوری دی۔ انہوں نے جون 1939 میں سوئٹزرلینڈ میں ایک بڑی بین الاقوامی آرٹ نیلامی کی منصوبہ بندی کی۔ ہنری میٹسی، پابلو پکاسو اور ونسنٹ وان گوف جیسے مشہور فنکاروں کے ضبط شدہ فن پاروں کی فروخت سے نازی حکومت کو بہت فائدہ ہوا۔

Artworks confiscated by Nazi Germany

ضبط شدہ فن پاروں— جن میں پابلو پکاسو، ہنری میٹسی اور ونسنٹ وان گوف کے فن پارے بھی شامل ہیں، شلوس Niederschoenhausen اسٹوریج ڈپو کی دیواروں پر لگے ہوئے ہیں۔ نازی حکومت نے ان کاموں کو "زوال پذیر" فن کے طور پر ضبط کر لیا تھا۔

کریڈٹس:
  • US Holocaust Memorial Museum, courtesy of bpk-Bildagentur

نازیوں نے تذبذب کے شکار غیر ملکی آرٹ ڈیلروں کو یہ یقین دلایا کہ منافع کو جرمنی کی جنگ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔ عوامی طور پر انہوں نے وعدہ کیا کہ تمام فنڈز جرمن عجائب گھروں میں جائیں گے۔ انہوں نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا۔ حکومت نے اپنے غیر ملکی منافع کا کچھ حصہ اسلحوں کی پیداوار پر خرچ کیا۔ 1939 میں نازیوں نے برلن کے مرکزی فائر ہاؤس کے صحن میں ایسی 5,000 سے زائد پینٹنگز جلا دیں جن سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

تقریباً ایک تہائی قیمتی ضبط شدہ فن پارے بالآخر نازی حکومت کو مالا مال کرنے کے لیے فروخت کیے گئے۔ دوسرے ایک تہائی فن پارے غائب ہو گئے۔ ان میں سے کچھ کئی سالوں کے بعد دوبارہ سامنے آئے۔ چند استثنآت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی بھی فن پارے کو ان عجائب گھروں کو واپس نہیں کیا گیا جہاں سے انہیں لیا گیا تھا۔ جرمن عجائب گھروں کو مالی امداد واپس نہیں ملی ہے۔ شاذونادر صورتوں میں نجی مجموعوں سے کچھ فن پاروں کو ان کے حقیقی مالکان کو واپس کر دیا گیا تھا۔ بہت سے یورپی اور امریکی عجائب گھروں میں اب بھی نازیوں کے فن پارے موجود ہیں۔  

Thank you for supporting our work

We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.

گلاسری