19 ستمبر 1941 کو، جرمن افواج یوکرین کے دارالحکومت کیف شہر میں داخل ہوئیں۔ جرمن زیر قبضہ یوکرین کے ایک بڑے حصے کے ساتھ ساتھ، شہر کو سلطنت کمشنریٹ یوکرین میں شامل کر دیا گیا تھا جس کا قیام یکم ستمبر کو ایرک کوچ کے بحیثیت منتظم (Reichskommissar) مقرر ہونے کے ساتھ عمل میں آیا۔

جرمن غلبے سے قبل، تقریباً ایک لاکھ 60 ہزار یہودی کیف میں رہائش پذیر تھے۔ یہ دارالحکومت کی کل آبادی کا لگ بھگ 20 فیصد تھا۔ جون 1941 میں آپریشن بارباروسا کے آغاز کے بعد، تقریباً ایک لاکھ یہودی کیف سے فرار ہو گئے یا پہلے سے ہی سوویت فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ جب جرمنوں نے کیف پر اپنا تسلط قائم کیا، تو اس وقت شہر میں تقریباً 60 ہزار یہودی باقی رہ گئے تھے۔ باقی وہیں رہنے والوں میں سے بیشتر پہلے فرار ہونے کے قابل نہیں تھے یا رضامند نہیں تھے۔ اس میں زیادہ تر خواتین، بچے، بوڑھے اور بیمار افراد شامل تھے۔

بابن یار میں قتلِ عام (29 – 30 ستمبر 1941)

قتل عام کا شکار ہونے والے یہودیوں کے سامان کی تلاشی

کیف پر جرمن قبضے کے پہلے ہفتے کے دوران، دو بڑے دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں نے جرمن ہیڈکوارٹرز اور شہر کے مرکز کی مرکزی سڑک (کریشکٹیک اسٹریٹ) کے گرد و نواح کے علاقوں کو تباہ کر دیا۔ ان دھماکوں میں بڑی تعداد میں جرمن فوجی اور حکومتی اہلکار ہلاک ہوئے۔ اگرچہ یہ دھماکے پسپا ہونیوالے سوویت فوجیوں اور اہلکاروں کی چھوڑی ہوئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہوئے تھے، لیکن جرمنوں نے تخریب کاری کو کیف میں اس وقت موجود باقی یہودیوں کو قتل کرنے کے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ 

29–30 ستمبر 1941 کو، ایس ایس اور جرمن پولیس یونٹس اور ان کے معاونین نے، Einsatzgruppe C کے اراکین کی رہنمائی میں، کیف میں رہنے والی ایک قابل ذکر تعداد میں یہودی آبادی کا قتل کیا۔یہ قتلِ عام بابن یار نامی گھاٹی میں ہوا (جسے انگریزی میں بعض اوقات "بابی یار" کہا جاتا ہے)۔ اس وقت یہ گھاٹی شہر کے بالکل قریب واقع تھی۔ 

متاثرین کو اس جگہ بلایا گیا، ان کے کپڑے زبردستی اتروائے گئے، اور پھر گھاٹی میں داخل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ سونڈرکومانڈو 4a، SS-Standartenführer پال بلوبل کے تحت Einsatzgruppe C کے ایک خصوصی فوجی دستے نے انہیں چھوٹے گروپس میں تقسیم کر کے گولی مار دی۔برلن میں آئن سیٹزگروپن کے ہیڈکوارٹرز کو ارسال کردہ رپورٹس کے مطابق، ان دو دنوں کے دوران 33,771 یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ 

1941 میں شروع کیا گیا نازی جرمنوں کی طرف سے بابن یار میں قتلِ عام، کئی بڑے قتل کے واقعات میں سے ایک واقعہ تھا۔ یہ جنگِ عظیم دوم کے دوران ایک ہی مقام پر سب سے بڑے قتل عام میں سے بھی ایک تھا۔ 

بابن یار میں دیگر کثیرالتعداد قتل کے واقعات (1941–1943)

بابن یار کی گھاٹی ستمبر 1941 کے قتلِ عام کے بعد دو سال تک قتل گاہ رہی۔ وہاں، کیف میں تعینات جرمنوں نے ہزاروں یہودی اور غیر یہودی دونوں گروہوں کے لوگوں کو قتل کیا۔ بابن یار میں ہلاک کیے گئے لوگوں کے جن دیگر گروہوں میں  مقامی نفسیاتی ہسپتال کے مریض، روما (خانہ بدوش)، سوویت جنگی قیدی، اور عام شہری شامل تھے۔  

بابن یار گھاٹی میں قتل و غارت کا سلسلہ سوویت یونین کے 6 نومبر کو کیف پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے صرف کچھ دن پہلے 1943 کے خزاں تک جاری رہا۔

یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بابن یار لگ بھگ ایک لاکھ لوگ قتل کیے گئے جن میں یہودی اور غیر یہودی دونوں شامل تھے۔ 

جرائم کو چھپانے کی کوششیں (اگست 1943)

اگست 1943 میں ریڈ آرمی کے کیف کے قریب پہنچنے پر، جرمنوں نے بابن یار میں جو کچھ ہو رہا تھا اسے چھپانے کے لیے ایک خفیہ کارروائی کا آغاز کیا۔ ایسا کرنے کے لیے، انہوں نے ان قیدیوں کا استعمال کیا جنہیں بابن یار گھاٹی کے قریب واقع سیرٹس حراست کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ سیرٹس کیمپ مئی 1942 میں جرمنوں نے قائم کیا تھا۔ یہ مقید سوویت جنگی قیدیوں، حامیوں اور یہودیوں کے لیے تھا جو ستمبر 1941 کے آخر میں ہونے والی اجتماعی کارروائیوں سے زندہ بچ گئے تھے۔

بابن یار میں کثیر تعداد میں قتل پر پردہ ڈالنے کے لیے، جرمنوں نے سیرٹس کے 321 قیدیوں کو اجتماعی قبریں کھودنے اور متاثرین کی باقیات کو جلانے کا حکم دیا۔ چھپ کر فرار ہونے والے اٹھارہ قیدیوں نے نومبر 1943 میں سوویت حکام کے سامنے ان کے جرائم کی شہادت پیش کی۔

بعد از جنگ انصاف

جنوری 1946 میں، کیف میں جرمن پولیس کے 15 ارکان پر بابن یار میں ارتکاب کردہ جرائم کا مقدمہ چلایا گیا۔ ستمبر کے قتلِ عام میں زندہ بچ جانے والی ایک یہودی خاتون، ڈینا پرونیچیوا نے سوویت عدالت کے روبرو گواہی پیش کی۔ اپنی جنگ کے بعد کی تحریری شہادتوں میں سے ایک میں، پرونیچیوا نے بیان کیا کہ اس نے بابن یار میں کیا دیکھا:

ہر مرتبہ میں نے مردوں اور عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے ایک نئے گروہ کو اپنے کپڑے اتارنے پر مجبور ہوتے دیکھا۔ ان سب کو ایک کھلے گڑھے میں لے جایا جاتا تھا جہاں سب مشین گنرز ان پر گولیاں چلانے لگتے۔ پھر ایک اور گروہ لایا گیا….میں نے اپنی آنکھوں سے یہ وحشت دیکھی۔ اگرچہ میں گڑھے کے قریب نہیں کھڑی تھی، پھر بھی دہشت زدہ لوگوں کی ہولناک چیخیں اور بچوں کی دبی دبی "ماں، ماں" پکارنے کی آوازیں..." مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔1

1947 میں، پال بلوبل پر نیورمبرگ میں امریکی فوجی ٹریبونل کے روبرو مقدمہ چلایا گیا۔ وہ بابن یار میں ستمبر 1941 میں یہودیوں کا قتلِ عام کرنے کی ذمہ دار آئن سیٹزگروپ یونٹ، سانڈر کومانڈو 4a کا کمانڈر تھا۔ بلوبل آئن سیٹزگروپن  مقدمے میں 24 مدعا علیہان میں سے ایک تھا اور اسے قصور وار نہ ٹھہرایا گیا۔ اس کے دفاع میں دلیل دی گئی کہ وہ محض احکامات پر عمل کر رہا تھا۔ اس کے باوجود، بلوبل کو مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ اسے 8 جون 1951 کو لانڈزبرگ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

آئن سیٹزگروپن کا مقدمہ: امریکی استغاثہ نے نسل کشی کی مذمت کی۔

1959 میں، ایرک کوچ پر، جو یوکرین میں بحیثیت سلطنت کمشنر (Reichskommissar) خدمات انجام دے چکا تھا، پولینڈ کی ایک عدالت نے جنگ عظیم دوم کے دوران مقبوضہ پولینڈ میں ارتکاب کردہ جرائم کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔ مقبوضہ یوکرین میں اس کے جنگی جرائم کے سبب اس پر کبھی کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا یا سزا نہیں سنائی گئی۔ خراب صحت کے باعث، کوچ کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اس کی موت 12 نومبر 1986 کو پولینڈ کی بارکزیوو جیل کے سیل میں قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ 

بعد از جنگ یادگاری

جنگ کے فی الفور بعد کی دہائیوں میں، بابن یار  جنگِ عظیم دوم اور سوویت یونین میں ہولوکاسٹ کی یاد میں جدوجہد کی ایک علامت بن گیا تھا۔ متعدد کوششوں کے باوجود، اس مقام پر کوئی یادگار نہیں تھی۔ پھر سوویت یونین نے 1976 میں ایک یادگار نصب کی۔ بابن یار میں یہودیوں کے المیہ کو خاطرخواہ بیان نہ کرتے ہوئے، یادگار پر موجود متن میں ہزاروں شہری متاثرین کا حوالہ بیان کیا گیا ہے، یہ ظاہر کیے بغیر کہ ان میں سے اکثریت یہودیوں کی تھی۔

جب اگست 1991 میں یوکرین کے آزادی کے اعلان کے نتیجے میں سوویت یونین تحلیل ہو رہا تھا، تو بابن یار کے یہودی متاثرین کے لیے 29 ستمبر، بڑے پیمانے پر فائرنگ کی 50ویں برسی پر، منورا کی شکل کی ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی۔