ہالوکاسٹ کے دوران بچے (مقالے کی تلخیص)
ہولوکاسٹ کے دوران بچوں کو خاص طور پر خطرہ تھا۔ جرمن اور ان کے مددگاروں نے 15 لاکھ سے زيادہ بچوں کو قتل کیا جس میں دس لاکھ یہودی بچوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں رومانی (خانہ بدوش) بچے، اداروں میں رہنے والے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور جرمن بچے، پولش بچے اور مقبوضہ سوویت یونین میں رہنے والے بچے شامل تھے۔ یہودی بستیوں میں یہودی بچے بھوک اور ٹھنڈ کی وجہ سے مناسب کپڑوں اور پناہ گاہوں کی کمی کی وجہ سے مر گئے۔ کیونکہ عام طور پر بچوں کی کم عمری کی وجہ سے انہيں جبری مشقت پر مامور نہيں کیا جا سکتا تھا۔ جرمن حکام عام طور پر انہيں بوڑھے، بیمار اور معذور افراد کے ساتھ پہلے ہی قتل کے مراکز میں بھیج دیتے تھے یا اجتماعی قبروں پر گولی مارنے کے لئے منتخب کرتے تھے۔ آشوٹز - برکناؤ اور دوسرے قتل کے مراکز پر پہنچنے کے ساتھ ہی کیمپ کے حکام زيادہ تر بچوں کو سیدھے گیس چیمبر کی طرف بھیج دیتے تھے۔ حراستی کیمپوں میں ایس ایس کے ڈاکٹر اور طبی محققین کئی بچوں پر، جن میں جڑواں بچے شامل تھے، طبی تجربات کرتے تھے، جن سے اکثر بچوں کی موت واقع ہو جاتی تھی۔
سن 1938 اور 1940 کے درمیان کنڈرٹرانسپورٹ (بچوں کی سواری) بچانے کی کوشش ایک غیررسمی نام تھا جس نے ہزاروں کی تعداد میں یہودی بچوں کو (بغیر ان کے والدین کے) حفاظت کی غرض سے جرمن نازی اور اس کے مقبوضہ علاقوں سے برطانیہ عظمی لے جایا گيا۔ پورے یورپ میں کچھ غیریہودیوں نے یہودی بچوں اور بعض اوقات این فرینک کی طرح گھر کے دوسرے افراد کو بھی چھپاتے تھے۔ مئی 1945 میں نازی جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، جس سے دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہوئی، پناہ گزین اور بے گھر افراد نے یورپ بھر میں گم شدہ بچوں کی تلاش شروع کر دی۔ ہزاروں یتیم بچوں کو بے گھر افراد کے کیمپوں میں رکھا گیا۔