انگے برتھولڈ اور ریجائنا اوئربیخر کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ یہ مذہبی یہودی خاندان کپن ھائم میں رہتا تھا۔ کپن ھائم جنوب مغربی جرمنی میں بلیک فارسٹ کے قریب واقع ایک گاؤں تھا۔ اُن کے والد ٹیکسٹائل کے تاجر تھے۔ یہ خاندان ایک بہت بڑے گھر میں رہتا تھا جس میں 17 کمرے تھے اور گھر کے کام کاج کیلئے ملازم بھی موجود تھے۔
1933-39: 10 نومبر1938 کو غنڈوں نے ہمارے گھر کی تمام کھڑکیوں کو پتھراؤ کر کے توڑ دیا۔ اُسی روز پولیس نے میرے والد اور دادا کو گرفتار کر لیا۔ میری والدہ، میری دادی اور خود میں ایک شیڈ میں اُس وقت تک چھپے رہے جب تک خاموشی نہیں ہو گئی۔ جب ہم باہر نکلے تو یہودی مردوں کو ڈاخو کے حراستی کیمپ میں لے جایا جا چکا تھا۔ میرے والد اور دادا کو چند ہفتوں بعد واپس گھر آنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اُسی سال مئی میں میرے دادا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
1940-45: جب میری عمر سات برس تھی مجھے میرے والدین کے ساتھ چیکوسلواکیہ میں تھیریسئن شٹٹ گھیٹو منتقل کر دیا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے تمام چیزیں لے لی گئیں۔ صرف وہ کپڑے ہمارے پاس رہے جو ہم نے پہنے ہوئے تھے۔ میری گڑیا مارلین بھی میرے پاس رہی۔ کیمپ کے حالات بہت ہی خراب تھے۔ آلو بھی ہیروں کی طرح قیمتی تھے۔ میں زیادہ تر بھوکی، خوفزدہ اور بیمار رہی۔ میری آٹھویں سالگرہ کے موقع پر میرے والدین نے مجھے آلوؤں کا ایک چھوٹا سا کیک دیا جس میں چینی برائے نام ہی استعمال ہوئی تھی۔ میری نویں سالگرہ پر مجھے کپڑوں کے چیتھڑوں سے سلا ہوا میری گڑیا کا لباس ملا اور میری دسویں سا؛لگرہ پر میری والدہ نے تحفے کے طور پر ایک نظم لکھی۔
8 مئی 1945 کو انگے اور اُن کے والدین کو ٹھیریسئن شٹٹ گھیٹو سے آزاد کر دیا گیا جہاں اُنہوں نے تین برس گزارے تھے۔ مئی 1946 میں وہ ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںجب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور آسٹروویک پر قبضہ کر لیا تو اُس وقت روتھ چار سال کی تھیں۔ اُن کے خاندان کو ایک یہودی بستی میں منتقل ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اگرچہ اُن کے والد کو یہودی بستی سے باہر کام کرنے کی اجازت مل گئی تاہم جرمنوں نے اُن کے فوٹوگرافی کے کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ یہودی بستی کے بند ہونے سے پہلے روتھ کے والدین نے اُن کی بہن کو چھپنے کیلئے ایک خفیہ جگہ بھیج دیا اور وہ خود بستی سے باہر ایک مزدور کیمپ میں کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ روتھ خود بھی ایک قریبی جنگل میں یا کیمپ کے اندر ہی کہیں چھپ گئیں۔ جب کیمپ کو بند کیا گیا تو روتھ کے والدین کو الگ الگ کردیا گیا۔ روتھ کو متعدد حراستی کیمپوں میں بھیجا گیا اور بالآخر اُنہیں آشوٹز کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ جنگ کے بعد روتھ کراکو کے ایک یتیم خانہ میں رہیں اور پھر وہ اپنی والدہ سے دوبارہ جا ملیں۔
آئٹم دیکھیںآئرین اور رین رینیٹ اور رین گوٹمین خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان جڑواں بچوں کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد یہ خاندان پراگ منتقل ہو گیا۔ یہ خاندان اس وقت پراگ میں ہی رہائش پزیر تھا جب جرمنی نے بوہیمیا اور موراویا پر مارچ 1939 میں قبضہ کیا۔ کچھ مہینوں بعد فوجی وردی میں ملبوس جرمنوں نے ان کے والد کو گرفتار کر لیا۔ کئی دہائیوں کے بعد رین اور آئرین کو یہ معلوم ہوا کہ انکے والد کو آشوٹز کیمپ میں دسمبر 1941 میں قتل کردیا گيا تھا۔ رین، آئرن اور انکی والدہ کو تھیریسین شٹٹ یہودی بستی میں بھجوا دیا گیا جہاں سے بعد میں اُنہیں آشوٹز کیمپ پہنچا دیا گیا۔ آشوٹز کیمپ میں ان جڑواں بچوں کو الگ کردیا گيا اور ان پر طبی تجربات کئے گئے۔ آشوٹز کیمپ سے آزادی کے بعد آئرن اور رین کچھ وقت تک الگ رہے۔ ریسکیو چلڈرن نامی گروپ آرین کو 1947 میں امریکہ لے آیا جہاں وہ رین سے 1950 میں دوبارہ ملی۔
آئٹم دیکھیںٹامس کا خاندان 1938 میں زیلینا چلا گیا۔ جب سلواک ہلنکا گارڈ نے یہودیوں کو ہراساں کرنا شروع کیا تو اس خاندان نے وہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ آخر میں ٹامس اور اس کا خاندان پولنڈ میں داخل ہوا لیکن 1939 میں جرمنی کے حملے نے اُنہیں برطانیہ جانے سے روک دیا۔ یہ خاندان کیلچ پہینچ گیا جہاں اپریل 1941 میں ایک یہودی بستی قائم ہوئی تھی۔ جب کیلچ یہودی بستی کو اگست 1942 میں ختم کر دیا گیا تو ٹامس اور اس کے خاندان نے ٹریبلنکا میں جلاوطن کئے جانے سے خود کو بچا لیا۔ اُس مہینے کے دوران بستی کے مکینوں کو وہاں بھجوایا جا رہا تھا۔ اس کے بجائے اُنہیں ایک جبری مشقت کے کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ وہاں سے اُنہیں اور اُن کے والدین کو اگست 1944 میں آشوٹز کیمپ بھجوا دیا گیا۔ جنوری 1945 میں جب سوویت فوجوں نے پیش قدمی شروع کی تو ٹامس اور دوسرے قیدیوں کو آشوٹز کیمپ سے موت کے مارچ پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں جرمنی کے ساخسین ھاؤسن کیمپ بھجوا دیا گیا۔ اپریل 1945 میں سوویت یونین نے جب ساخسین ھاؤسن کیمپ کو آزاد کرایا تو ٹامس کو ایک یتیم خانے میں داخل کرا دیا گیا۔ رشتہ داروں نے بعد میں اُنہیں ڈھونڈ نکالا اور وہ گوئٹنگن میں اپنی والدہ سے جا ملے۔ وہ 1951 میں امریکہ منتقل ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںجرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جرمن قبضے کے بعد سارا (جو اُس وقت صرف تین سال کی تھیں) اور اُن کی والدہ کو زبردستی یہودی بستی میں بھیج دیا گيا۔ ایک دن پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک کیتھولک پولیس مین نے اُنہیں خبردار کیا کہ یہودی بستی ختم کی جانے والی ہے۔ اس نے پہلے سارا اور اُن کی والدہ کو اپنے گھر میں پناہ دی پھر ان کو آلوؤں کے گودام میں اور اُس کے بعد اپنی جائداد میں موجود مرغیوں کے ڈربے میں چھپائے رکھا۔ سارا وہاں تقریبا دو سال تک چھپی رہیں یہاں تک کہ سوویت فوجوں نے اس جگہ کو آزاد کرا لیا۔ جنگ کے بعد سارا یورپ سے پہلے 1947 میں اسرائيل آئیں اور پھر 1963 میں امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںدو بہنوں میں چھوٹی لیڈیا ایک یہودی ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئي جوسیروس پاٹک میں رہ رہے تھے۔ یہ شمال مشرقی ہنگری کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ لیڈیا کے والدین ڈرائی گُڈز کے ایک کامیاب کاروبار کے مالک تھے۔ اُس وقت ریڈی میڈ ملبوسات دیہی علاقوں میں ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ قصبے کے لوگ اور مقامی کسان لیبووٹز اسٹور سے ان سلا کپڑا خریدتے تھے اور پھر کپڑے سلانے کیلئے کسی درزی یا درزن کے پاس لیجاتے تھے۔
1933-39: لیڈیا کی عمر دو سال تھی جب اُن کی خالہ سیڈی جو کئی برس قبل امریکہ نقل مکانی کر گئی تھیں، اپنے دو بچوں آرتھر اور لیلین کے ساتھ لیڈیا کے خاندان سے ملنے آئیں۔ اپنے دادا دادی کے فارم پر تمام کزنز نے کھیتے کودتے ہوئے اچھا وقت گزارا۔ امریکہ سے آتے ہوئے لیڈیا کی خالہ کا جہاز ہیمبرگ جرمنی میں رکا اور خالہ سیڈی نے نازیوں کو گلی کوچوں میں مارچ کرتے دیکھا۔ خالہ سیڈی پریشان تھیں کہ سیروس پاٹک میں اُن کے خاندان کا کیا ہو گا۔
1940-44: 1944 میں جرمنی نے ہنگری پر قبضہ کرلیا۔ حملے کے ایک ماہ بعد نازی احکام پر عمل کرتے ہوئے ہنگری کی پولس یعنی ژانڈارم نے لیڈیا اور اُن کے والدین کو اُن کے گھر سے نکال دیا۔ لیبووٹز خاندان نے دیگر سینکڑوں یہودی شہریوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے سناگاگ میں تین دن گزارے جس کے بعد اُنہیں ایک قریبی قصبے سیتورل جوجھیلی بھیج دیا گیا جہاں تقریباً 15 ھزار یہودیوں کو قصبے کے خانہ بدوشوں کے علاقے میں قائم ایک چھوٹی یہودی بستی یعنی گھیٹو میں بھر دیا گیا۔ گھیٹو کے رہائشیوں کو خوراک کے حصول میں کافی مشکلات رہیں۔
یہ بستی مئی اور جون 1944 میں بند کردی گئی۔ تمام یہودیوں کو مہربند باربردار گاڑیوں میں سوار کر کے آشوٹز بھیج دیا گیا۔ لیڈیا اور اُن کے والدین کے بارے میں کبھی کوئی خبر یا اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
آئٹم دیکھیںٹامس کے والدین یہودی تھے۔ اس کے والد رابرٹ کُلکا موراویا کے قصبے اولوماک کے ایک تاجر تھے۔ اس کی ماں ایلنا سکوٹیزکا موراویا کے دارالحکومت برنو سے تعلق رکھتی تھی جہاں وہ کُلاہ ساز یعنی عورتوں کے ہیٹ ڈیزائن کرنے والی خاتون تھی۔ یہ جوڑا تعلیم یافتہ تھا اور چیک اور جرمن دونوں زبانیں بولتا تھا۔ اُنہوں نے 1933 میں شادی کی اور رابرٹ کے آبائی شہر اولوماک میں آباد ہوگئے۔
1933-39: ٹامس اپنے والدین کی شادی کے ایک سال اور ایک دن کے بعد پیدا ہوا۔ جب ٹوماس 3 سال کا تھا تو اس کے دادا کا انتقال ہوگيا اور کُلکا خاندان برنو منتقل ہوگيا جو ٹامس کی والدہ کا آبائی شہر تھا۔ 15 مارچ 1939 کو ٹامس کی پانچویں سالگرہ سے چند ہفتے پہلے جرمنی نے برنو سمیت بوہیمیا اور موراویا پر قبضہ کرلیا۔
1940-42: 2 جنوری 1940 کو ٹامس اور اس کے والدین اور نانی کو جرمنوں نے اُن کے گھر سے باہر نکال دیا۔ ٹامس کے والد نے اِس اُمید میں برنو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خاندانی کاروبار کو بچا سکیں گے۔ ٹامس چونکہ یہودی تھا لہذا اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک سال کے بعد ٹامس کے والد کو اپنا کاروبار ایک جرمن شخص کے ہاتھ صرف 200 چیکوسلواکین کراؤن یعنی 10 ڈالر سے بھی کم میں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ 31 مارچ 1942 کو کُلکا خاندان کو ڈی پورٹ کر کے مغربی چیکوسلواکیا کی تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں منتقل کردیا گيا۔
9 مئی، 1942 کو ٹامس کو ڈی پورٹ کر کے سوبی بور قتل گاہ بھجوا دیا گیا جہاں اُسے گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 7 برس تھی۔
آئٹم دیکھیںہینوک کے مذہب سے وابستگی رکھنے والے یہودی والدین نے 1937 میں شادی کی۔ اس کے والد موئیشے کارن فیلڈ اور اسکی والدہ لیبا سالسٹز کالس زووا میں آباد ہو گئے تھے جہاں ہینوک کی والدہ پلی بڑھی تھیں۔ وہاں لیبا کے والد نے اس نئے جوڑے کو ایک مکان خریدوا دیا اور اپنے داماد کو ہول سیل ٹیکسٹائل کاروبار شروع کروا دیا۔
1938-39: ہینکو 1938 کے آخر میں پیدا ہوا اور بہت سے چچے چچیوں اور چچا زاد بھائی بہنوں کے درمیان پلا بڑھا۔ ہینوک کی پہلی سالگرہ کے لگ بھگ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور جلد ہی کالبس زووا تک پہنچ گيا۔ پولینڈ کے گھوڑ سوار فوجیوں نے جرمن فوج کے خلاف لڑنے کی کوشش کی مگر ٹینکوں کے سامنے انکا کوئی بس نہ چلا۔ ایک مختصر سی لڑائی کے بعد سٹرکیں مرے ہوئے گھوڑوں سے بھر گئیں۔ ہینوک کا قصبہ جرمنی کے قبضے میں چلا گیا۔
1940-42: بچوں سمیت قصبے کا ہر شخص جرمن پولیس کے وحشی کمانڈر ھافین بیئر کو جانتا تھا جس کا چہرا بل ڈاگ کی مانند تھا اور جو کالبس زووا میں تعینات ہوا تھا۔ ھافین بیئر نے دہشت پھیلادی اور قصبے کے بہت سے یہودیوں کو ہلاک کردیا۔ ہینوک اکثر قصبے کے دیگر بچوں کے ساتھ ایک کھیل میں ھافین بیئر کی نقل اتارتا تھا اور اپنے دوستوں سے کہتا تھا کہ " اگر تم یہودی ہو تو تمہاری موت ہے۔" پھر ایک لکڑی کی بندوق سے ہینوک اپنے دوستوں کو گولی مارنے کی نقل اتارتا تھا اور وہ لوگ یہ ظاہر کرتے ہوئے گرتے تھے جسے کہ وہ مر گئے ہوں۔
ہینوک اور اس کے خاندان کو 25 جون 1942 کو رزیس زو کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا اور پھر 7 جولائي کو بیل زیخ کی قتل گاہ پہنچا دیا گیا جہاں اُنہیں زہریلی گیس سے مارڈالا گيا۔ ہینوک اُس وقت ساڑھے تین سال کا تھا۔
آئٹم دیکھیںرینیٹ، اُن کے جڑواں بھائي رینے اور ان کےجرمن یہودی والدین پراگ میں رہتے تھے۔ اِن جڑواں بچوں کے پیدا ہونے سے کچھ ہی پہلے رینیٹ کے والدین نازی حکومت کی یہودیوں کے خلاف پالیسیوں سے بچنے کی خاطر ڈریسڈن جرمنی سے بھاگ نکلے۔ چیکوسلواکیا میں رہنے کیلئے جرمنی چھوڑنے سے پہلے رینیٹ کے والد ہربرٹ امپورٹ اکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ اُن کی والدہ ایٹا اکاؤنٹنٹ تھیں۔
1933-39: ہمارا خاندان پراگ میں نمبر 22 ٹرالی لائن پر واقع ایک چھ منزلہ رہائشی عمارت میں رہتا تھا۔ لمبی عمودی سیڑھیاں ہمارے اپارٹمنٹ تک جاتی تھیں جہاں میرے بھائی رینے اور میں اپنے والدین کے سونے کے کمرے میں ایک ہی پالنے میں سوتے تھے۔ باہر صحن کی طرف ایک ٹیرس بھی تھا۔ رینے اور میں ایک جیسا لباس پہنتے تھے اور ہمیشہ اچھے کپڑوں میں ملبوس رہتے تھے۔ ہمارے بیشتر دن ایک قریبی پارک میں کھیلتے گزرتے۔ مارچ 1939 میں جرمن فوج نے پراگ پر قبضہ کرلیا۔
1940-45: میری عمر چھ برس ہونے سے کچھ پہلے ہمیں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی سے آشوٹز بھیج دیا گیا جہاں میرا نمبر 70917 تھا۔ مجھے میرے بھائی اور والدہ سے الگ کر کے ہسپتال بھیج دیا گيا جہاں میرا ناپ لیا گیا اور ایکسرے اتارے گئے۔ میری گردن سے خون بھی لیا گیا۔ ایک بار مجھے میز سے باندھ کر چھری سے کاٹا گیا۔ مجھے ایسے ٹیکے لگائے گئے جن سے مجھے قے ہوتی اور اسہال کی شکایت رہتی۔ ہسپتال میں ٹیکے لگنے کے بعد بیمار ہونے پر وہاں گارڈ پہنچ گئے تاکہ بیمار لوگوں کو مرنے کیلئے لے جائیں۔ میری دیکھ بھال کرنے والی نرس نے مجھے اپنی لمبی سکرٹ میں چھپا لیا اور میں اُس وقت تک خاموش رہی جب تک کہ گارڈ چلے نہیں گئے۔
رینیٹ اوراُس کے بھائی بچ گئے اور 1950 میں دوبارہ امریکہ میں اکٹھے ہوگئے۔ اُنہیں یہ پتہ چلا کہ "مینگیلے جڑواں" ہونے کی وجہ سے اُنہیں طبی تجربات کیلئے استعمال کیا گیا۔
آئٹم دیکھیںزگمونڈ کے والدین چیکوسلواکیہ کے یہودی تھے جو نقل مکانی کر کے بیلجیم آئے تھے۔ اُن کی والدہ ریوکا قمیضیں بناتی تھی۔ وہ اپنے بڑے بھائی جرمی کے پیچھے پیچھے نوکری کی تلاش میں بیلجیم آ گئیں۔ جرمی اپنے خاندان سمیت کئی برس پہلے لئیج آ چکے تھے۔ لئیج میں ریوکا کی ملاقات اوٹو ایڈلر نامی ایک تاجر سے ہوئی اور اُنہوں نے شادی کر لی۔ یہ جوڑا ایک خاندان بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
1933-39: زگمونڈ 1936 میں پیدا ہوئے لیکن ایک برس بعد اُن کی والدہ چل بسیں۔ اُن کے والد نے دوبارہ شادی کر لی مگر یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ زگمونڈ کے والد نے تیسری بار شادی کی اور جلد ہی زگمونڈ کی ایک سوتیلی بہن پیدا ہوئي اور یوں اُن کی خاندانی زندگی میں کچھ استحکام آیا۔ زگمونڈ جب چھوٹے تھے تو اکثر اپنے ماموں جرمی کے خاندان سے ملنے جاتے تھے جو چند ہی بلاک کے فاصلے پر رہتے تھے۔
1940-44: جب جرمنوں نے بیلجیم پر قبضہ کیا تو زگمونڈ کی عمر 3 برس تھی۔ دو سال کے بعد جرمنوں نے اُن کے والد کو جبری مشقت کیلئے جلاوطن کردیا۔ اس کے بعد زگمونڈ کی سوتیلی ماں زگمونڈ کو اُن کے ماموں جرمی اور ممانی چاجے کے سپرد کرکے لئیج سے چلی گئی۔ جب نازیوں نے لئیج میں یہودیوں کو پکڑنا شروع کیا تو ماموں جرمی کے کچھ کیتھولک دوستوں نے اُنہیں جعلی کاغذات حاصل کرنے میں مدد دی ۔ اِن کاغذات کی مدد سے اُن کی یہودی شناخت چھپ گئی اور اُنہوں نے ایک قریبی گاؤں میں ایک گھر کرائے پر لے لیا۔ دوبرس بعد ایک اتوار کو علی الصبح گسٹاپو خفیہ پولس اُن کے گھر پر آئی۔ انھیں شبہ تھا کہ وہاں یہودی رہ رہے تھے۔
زگمونڈ، اُن کی ممانی اور اُن کے دو ماموں زاد بھائیوں کو میکلن انٹرنمنٹ کیمپ بھیجا گيا اور پھر وہاں سے آشوٹز روانہ کر دیا گیا جہاں 12 مئی 1944 کو سات سالہ زگمونڈ کو گیس چیمبر میں ہلاک کر دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم ستمبر 1939 میں شروع ہوئی۔ بریجٹ اور اُن کا خاندان کوونو اس امید میں منتقل ہوگئے کہ وہاں سے پاس پورٹ اور ویزا کی کارروائی مکمل کرکے شمالی امریکہ چلے جائیں گے۔ لیکن جولائی 1941 میں جب جرمنی نے لیتھوانیا پر قبضہ کرلیا تو اس نے بریجٹ اور اُن کے خاندان کو زبردستی کوونو یہودی بستی میں منتقل کردیا۔ بریجٹ اور اُن کا خاندان "بڑے ایکشن،" کے دوران بچنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اُن کی والدہ یہودی بستی میں بیماری کے سبب جاں بحق ہوگئیں۔ مارچ 1944 میں بچوں کو ہدف بنانے والی کارروائی کے دوران بریجٹ اپنے والد کے ایک سابق ملازم کی مدد سے یہودی بستی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ سویت فوجوں نے کوونو کو اگست 1944 میں آزاد کرایا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.