اقتباسات

"ہماری جماعت کا ایک طالب علم کل بھوک اور کمزوری کے باعث دم توڑ گیا۔ اس کی بہت بری حالت کے سبب، اسے سکول میں اجازت دی گئی کہ جتنا مرضی وہ چاہے سوپ پی لے، لیکن اس سے اسے کچھ زیادہ مدد نہ مل سکی۔ وہ کلاس کا تیسرا متاثرہ فرد ہے۔"
—ڈیوڈ سیراکوویاک، عمر 16 سال، 13 مئی 1941 1

 

"میں کل سے زین سازی کی ورکشاپ میں اپنا کام شروع کروں گا….میرے طالب علمی کے کیرئیر کو کم از کم کچھ عرصہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے….اب اصل کام آمدنی بنانا اور غربت سے لڑنا ہے۔"
[عمر 17، 23 اکتوبر 1941]

 

"مجھے بس اس بات کا خیال رہتا ہے کہ میری ورکشاپ میں سوپ موجود ہو۔"
[عمر 17، 3 اپریل 1942]

 

ہمیں انسان نہیں؛ بلکہ کام لینے یا ذبح کرنے کے لیے محض مویشی سمجھا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ لوڈز سے ملک بدر یہودیوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس وقت کوئی بھی کسی بھی معاملہ کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ وہ پوری سلطنت میں یہودیوں کے تعاقب میں ہیں"۔
[عمر 17، 20 مئی 1942]

ڈیوڈ کی کہانی

ڈیوڈ سیراکوویاک جولائی 1924 میں مجلیک اور سورا سیراکوویاک کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد یہودی الماری ساز تھے۔ ڈیوڈ اور اس کی چھوٹی بہن، نتالیہ (جسے اس کے اہل خانہ نادزیہ پکارتے تھے)، اپنے والدین کے ساتھ اپنے آبائی شہر لوڈز پولینڈ میں مقیم تھے۔

نوعمری میں، سیراکوویاک مقامی نجی یہودی ابتدائی اسکول کا طالب علم تھا (جسے پولش زبان میں جمنازیم کہتے تھے)۔ اس نے اسکالرشپ پر اسکول میں داخلہ لیا۔ ڈیوڈ ایک بہت اچھا شاگرد تھا اور اپنی کلاس میں اول آتا تھا۔ اس کی ڈائری کے مطابق، سیراکوویاک غیر ملکی زبانوں سمیت، گہری دلچسپیوں کے ساتھ مطالعہ کا شوقین تھا۔ اس نے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، عبرانی اور لاطینی زبان کا مطالعہ کیا۔

ڈیوڈ سیراکوویاک کی ڈائری

ڈیوڈ سیراکوویاک نے اپنی پندرہویں سالگرہ سے چند ہفتے قبل، جون 1939 کے آخر میں ایک ڈائری رکھنا شروع کر دی تھی۔ یہ اسی سال ستمبر میں جنگِ عظیم دوم شروع ہونے سے فقط چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ اپنی ڈائری میں، سیراکوویاک نے باریک بینی سے ہر دن کی خبروں کو قلم بند کیا۔ اس نے اپنے جذبات، مزاج اور رائے کے بارے میں بھی تحریر کیا۔ اس نے جنگ شروع ہونے کے بعد بھی اپنی ڈائری لکھنا جاری رکھا۔

سیراکوویاک کی ڈائری ایک نوعمر شخص کی آنکھوں کے ذریعے، مقبوضہ پولینڈ میں جرمنوں کے ماتحت یہودیوں کی زندگی کا ایک روز مرہ کا اور براہ راست بیان پیش کرتی ہے۔ خاص طور پر، اس کی ڈائری لوڈز یہودی برادری کے المیے کی واقعہ نگاری کرتی ہے، جسے جرمنوں نے فروری 1940 میں ایک یہودی بستی میں یکجا کر دیا تھا۔

اپنی ڈائری میں، سیراکوویاک یہودی بستی کی زندگی کے روز مرہ کے المیے تحریر میں لایا۔ اس نے نوکری تلاش کرنے میں اپنی مایوسی اور اپنی چھوٹی بہن کے مصائب کو بیان کیا۔ اس نے اپنے اور اپنے والد کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ ساتھ، 1942 کی جلاوطنی کی کارروائی یعنی  Gehsperre Aktion کے دوران اپنی بیمار ماں کی ملک بدری کے بارے میں بھی لکھا۔

ڈیوڈ سیراکوویاک کی ڈائری اپریل 1943 میں اچانک ختم ہو گئی۔ انہی دنوں، اسے معلوم ہوا کہ اس نے ایک بیکری میں ایک بڑی مانگ والی ملازمت حاصل کر لی ہے، لیکن وہ پہلے ہی علیل تھا اور تیز بخار میں مبتلا تھا۔ کام حاصل کرنے کی امید کی کرن کے باوجود، سیراکوویاک اس صورتحال سے مایوس ہو گیا تھا جس کا وہ اور لوڈز یہودی بستی کے یہودی سامنا کر رہے تھے۔ اپنی ڈائری میں اس نے لکھا:

"ایک بار پھر اضطراب سے نکل کر، میں خود کو افسردگی میں گرتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ ہمارے لیے اس سے نکلنے کا واقعی کوئی راستہ نہیں ہے۔"

—منجانب The Diary of Dawid Sierakowiak، 15 اپریل 1943

ڈیوڈ سیراکوویاک 8 اگست 1943 کو غالباً تپ دق کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ اس وقت وہ فقط 19 سال کا تھا۔ اس کے والد نے بھی یہودی بستی میں سخت گیر حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ اس کی بہن نادیہ 1944 تک، آخری یہودی بستی کے باشندوں کے ساتھ ملک بدر کیے جانے تک زندہ رہی جہاں آشوٹس- برکیناؤ میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

جنگ کے فوراً بعد، وہ غیر یہودی پول باشندہ واپس لوٹ آیا جو یہودی بستی کے حصے کے طور پر اپارٹمنٹ پر قبضے سے قبل اس اپارٹمنٹ کا مالک تھا۔ اس نے پانچ نوٹ بُکس دریافت کیں، جو سب سیراکوویاک کی ڈائری کے باقی حصوں میں سے تھیں۔ آج پانچوں نوٹ بُکس یاد واشم اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کے دستاویزات کے خانے میں رکھی گئی ہیں۔ نامکمل ہونے کے باوجود بھی، وہ لوڈز یہودی بستی کی زندگی کا ایک بھرپور اکاؤنٹ بیان کرتی ہیں۔