یورپی روما (خانہ بدوشوں) کی نسل کشی، 1939-1945
نازی حکومت اور اس کی ساتھی محوری قوتوں نے جن گروہوں کو نسلی بنیادوں پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، ان میں روما (خانہ بدوش) بھی شامل تھے۔
نازیوں نے روما کی جانب سماجی تعصب رکھنے والے غیرنازی جرمنوں کا تعاون حاصل کر کے روما کو "نسلی طور پر کمتر" قرار دے دیا۔ روما کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ یہودیوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی طرح ہی تھا۔ نازی حکومت کے دوران جرمن حکام نے روما کو صوابدیدی قید، جبری مزدوری اور اجتماعی قتل کا نشانہ بنایا۔ جرمن حکام نے سوویت یونین اور سربیا کے جرمنوں کے مقبوضہ علاقوں میں دسیوں ہزاروں، اور آشوٹز برکناؤ، چیلمنو، بیلزیک، سوبیبور اور ٹریبلنکا میں قتل کے مراکز میں مزید ہزاروں کو قتل کر دیا۔ ایس ایس اور پولیس نے روما کو برگین-بیلسین، سیخسن ہاؤسن، بوخینوالڈ، ڈاخاؤ، ماتھاؤسن اور ریونزبرگ کے کنسنٹریشن کیمپس میں قید کر دیا۔ عظیم جرمن رائخ اور عمومی حکومت دونوں ہی میں جرمن سول حکام نے کئی جبری مزدوری کیمپ قائم کئے جہاں روما کو قید رکھا گيا۔
21 ستمبر 1939 کو رائيخ کی سلامتی کے مرکزی دفتر کے سربراہ رائینہارڈ ہیڈریخ نے برلن میں سلامتی کی پولیس (سیپو) اور سلامتی کی خدمت (ایس ڈی) کے افسران سے ملاقات کی۔ انہيں پولینڈ کے حملے میں جرمن فتح کی ضمانت حاصل تھی اور وہ 30،000 جرمن اور آسٹرین روما کو عظیم جرمن رائيخ سے جلاوطن کر کے عمومی حکومت (جرمن کے مقبوضہ پولینڈ کا وہ حصہ جو جرمنی کے ساتھ ملحقہ نہيں تھا) بھیجنا چاہتے تھے۔ عمومی حکومت میں مقبوضہ علاقے کے اعلی ترین سول افسر گورنر جنرل ہینس فرینک کی طرف سے 1940 کے موسم بہار میں عمومی حکومت میں بڑی تعداد میں روما اور یہودیوں کو قبول کرنے سے انکار سے اس منصوبے پر پانی پھر گیا۔
جرمن حکام 1940 اور 1941 میں کچھ روما کو عظیم جرمن رائيخ سے جلاوطن کر کے مقبوضہ پولینڈ بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔ مئی 1940 میں ایس ایس اور پولیس نے تقریبا 2500 روما اور سینٹی کو، جو بنیادی طور پر ہیمبرگ اور بریمن کے رہائشی تھے، جلاوطن کر کے عمومی حکومت میں ضلع لبلن بھیج دیا۔ ایس ایس اور پولیس حکام نے اُنہیں جبری مزدوری کیمپس میں قید کر دیا۔ ان کے رہنے اور کام کرنے کے حالات ان میں سے کئی کے لئے جان لیوہ ثابت ہوئے۔ بچنے والوں کے ساتھ جو ہوا اس کے متعلق کسی کو علم نہيں ہے؛ ممکن ہے کہ جو زندہ بچ گئے تھے انہیں بیلزیک، سوبیبور یا ٹریبلنکا کے گیس چیمبر میں ایس ایس کے ہاتھوں مار دیا گيا ہو۔ 1941 کے خزاں کے موسم میں جرمن پولیس حکام نے 5007 سنٹی اور لالیری خانہ بدوشوں کو آسٹریا سے جلاوطن کر کے لوڈز کی یہودی بستی بھیج دیا، جہاں انہيں علیحدہ حصے میں رکھا گيا۔ کھانے، ایندھن، پناہ اور ادویات کی کمی کی وجہ سے تقریبا آدھے روما وہاں پہنچنے کے چند ماہ کے اندر اندر مارے گئے۔ ان حالات سے بچنے والے افراد کو جرمن ایس ایس اور پولیس کے افسران نے 1942 کے شروع کے چند مہینوں کے دوران چیلمنو میں قتل کے مرکز میں منتقل کر دیا۔ وہاں لوڈز کی یہودی بستی کے دسیوں ہزاروں یہودی رہائشیوں کے ساتھ انہيں بھی کاربن مونو آکسائيڈ گیس کے ذریعے گیس کی وینوں میں مار دیا گيا۔
جلد ہی عظیم جرمن رائيخ سے جلاوطن کرنے کے ارادے سے جرمن حکام نے تمام روما کو خانہ بدوشوں کے کیمپس (زیگیونرلاگر) میں قید کر لیا۔ 1940 میں روما کی جلاوطنی کی معطلی کے بعد یہ سہولیات طویل المیعاد باڑوں میں تبدیلی ہو گئيں۔ ان میں سے بدترین کیمپس برلن میں مارزاہن کے ساتھ ساتھ آسٹریا کے لیکنباخ اور سالزبرگ تھے۔ ان کے بدترین حالات کی وجہ سے سینکڑوں روما جاں بحق ہو گئے۔ مقامی جرمن کیمپس کے متعلق بار بار شکایتیں کرتے رہے، اور عوامی اخلاق، عوامی صحت اور سلامتی کے "تحفظ" کے لئے وہاں قید روما کی جلاوطنی کا مطالبہ کرتے رہے۔ مقامی پولیس نے ان شکایات کی بنیاد پر رائيخ فہریر - ایس ایس (ایس ایس کے سربراہ ہائینریخ ہملر سے مشرق تک روما کی جلاوطنی کی بحالی کی اپیل کی۔
دسمبر 1942 میں ہملر نے عظیم جرمن رائيخ سے تمام روما کی جلاوطنی کا حکم دے دیا۔ مخصوص زمروں کو استثنی حاصل تھی، جن میں قدیم زمانے کے "خالص خانہ بدوشوں کے خون" کے مالک افراد، جرمن سماج میں ضم ہونے کی وجہ سے "خانہ بدوشوں کے اطوار نہ اپنانے والے" خانہ بدوش، اور جرمن افواج میں خدمات انجام دینے والے افراد اور ان کے گھر والے شامل تھے۔ ان استثنی کا اطلاق تقریبا 5 ہزار اور شاید 15 ہزار افراد پر ہوتا تھا تاہم مقامی حکام اکثر راؤنڈ اپ کے دوران اس امتیاز کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ پولیس حکام نے جرمن افواج میں بھرتی روما فوجیوں (ویہرماخٹ) کو چھٹیوں کے دوران بھی تحویل میں لے کر جلاوطن کر دیا۔
عمومی طور پر جرمن پولیس نے عظیم جرمن رائيخ سے جلاوطن کر کے آشوٹز برکناؤ بھیج دیا، جہاں کیمپ کے حکام نے انہيں "خانہ بدوشوں کے خاندانی کیمپ" نامی خاص چاردیواری میں رکھا تھا۔ مجموعی طور پر 23،000 روما، سنٹی اور لالیری کو جلاوطن کر کے آشوٹز بھیجا گيا۔ خانہ بدوشوں کی اس چاردیواری میں پورے پورے خاندان ایک ساتھ رہتے تھے۔ ایس ایس کپتان ڈاکٹر جوزیف مینگیل جیسے آشویٹز کمپلیکس کو متعین کردہ طبی محققین کو آشوٹز کنسنٹریشن کیمپ کے کمپلیکس کے قیدیوں سے نام نہاد سائنسی طبی تجربات کے لئے افراد منتخب کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مینگیل نے اپنے تجربوں کے لئے جڑواں بھائی بہنوں اور بونوں کا انتخاب کیا، جن میں سے کچھ کا تعلق خانہ بدوشوں کے خاندانی کیمپ سے تھا۔ دوسرے جرمن کنسنٹریشن کیمپس میں تقریبا 3500 بالغ اور نوجوان روما کو قید کیا گيا تھا؛ طبی محققین نے کیمپس میں یا قریبی اداروں میں اپنے تجربوں کے لئے ریونزبرک، نیٹزویلر سٹرٹہاف اور سیخسینہاؤسن کے کنسنٹریشن کیمپس میں قید روما کا انتخاب کیا۔
آشوٹز-برکناؤ کے حالات جراثیم زدہ بیماریوں اور وباؤوں - ٹائفس، اسمال پاکس اور پیچش- کا باعث بننے لگے، جس کی وجہ سے کیمپ کی آبادی میں خاصی کمی واقع ہونے لگی۔ مارچ کے اختتام میں ایس ایس نے گیس چیمبروں میں بیالیسٹوک کے علاقے سے تعلق رکھنے والے 1700 روما کو قتل کر دیا۔ یہ چند روز پہلے ہی پہنچے تھے اور ان میں سے کئی بیمار تھے۔ مئی 1944 میں کیمپ کے سربراہان نے خانہ بدوشوں کی چار دیواری کے رہائشیوں کو قتل کر دینے کا فیصلہ کیا۔ ایس ایس کے گارڈ نے چار دیواری کو گھیرے میں لے لیا۔ جب انہيں باہر نکلنے کا حکم دیا گيا تو روما نے انکار کر دیا۔ انہيں پہلے سے خبر مل چکی تھی اور انہوں نے اپنے آپ کو فولاد کے پائپ، بیلچوں اور مزدوری کے دوسرے آلات سے لیس کر لیا۔
ایس ایس کے سربراہان نے روما کے ساتھ تصادم نہيں کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ 1944 میں موسم بہار کے اختتام اور موسم گرما کے شروع میں کام کرنے کے قابل 3000 روما کو آشوٹر I اور جرمنی میں دیگر کنسنٹریشن کیمپس منتقل کرنے کے بعد، ایس ایس سے 2 اگست کو باقی 2898 قیدیوں کے خلاف قدم اٹھایا۔ انہوں نے زیادہ تر بیمار، بوڑھے مرد، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ کیمپ کے عملے نے برکناؤ کے گیس چیمبر میں تقریبا سب کو ہی مار ڈالا۔ اگلے چند روز میں آپریشن کے دوران چھپ جانے والے چند بچوں کو پکڑ کر مار دیا گيا۔ آشوٹز بھیجے جانے والے 23000 روما میں سے کم از کم 19000 وہاں مارے گئے۔
جرمنی کے مقبوضہ یورپ میں روما کے ساتھ مقامی صورت حال کے مطابق ہر ملک میں مختلف سلوک کیا گيا۔ جرمن حکام نے عام طور پر روما کو قید کر لیا اور انہيں جرمنی میں جبری مشقت پر مامور کر دیا یا جبری مشقت یا موت کے گھاٹ اتارے جانے کے لئے جلاوطن کر کے پولینڈ لے جایا گيا۔ جرمن اور آسٹرین یہودیوں کے حوالے سے جرمن پالیسی کے برعکس، جن کے تحت "ملے جلے خون" کے مالک افراد کو جلاوطنی سے استثنی حاصل تھا (لیکن جبری مشقت سے استثنی حاصل نہيں تھا)، ایس ایس اور پولیس نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ "خالص خون" کے مالک خانہ بدوشوں سے کسی قسم کا نقصان نہيں پہنچ سکتا تھا، لیکن "ملے جلے خون" کے مالک خانہ بدوش خطرناک تھے، اور انہيں جلاوطن کیا جاسکتا تھا۔
جرمن افواج اور ایس ایس پولیس کے یونٹس نے بالٹک ریاستوں اور مقبوضہ سوویت یونین میں دیگر مقامات میں کم از کم 30،000 روما کو قتل کیا۔ مقبوضہ سوویت یونین میں آئین سیٹز گروپین اور دوسرے موبائل قتل و غارت کے یونٹ نے یہودیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ ساتھ روما کو بھی قتل کیا۔ مقبوضہ سربیا میں جرمن حکام نے 1941 اور 1942 کے شروع میں گولیوں سے کئی روما مردوں کو قتل کرنے کے بعد 1942 میں گیس کی وینوں میں خواتین اور بچوں کو قتل کر دیا۔ سربیا میں قتل ہونے والے روما کی تعداد کا کبھی پتہ نہيں لگایا جا سکا ہے۔ اندازے کے مطابق 1000 اور 12000 کے درمیان افراد کو مارا گیا تھا۔
فرانس میں وسی فرانسیسی حکام نے 1940 میں معاون حکومت کے قیام کے بعد روما کو پابند کرنے کی تدابیر اور ہراس میں اضافہ کر دیا۔ 1941 اور 1942 میں فرانسیسی پولیس نے کم از کم 3000 اور شاید 6000 تک روما کو قید میں لے لیا، جو مقبوضہ اور غیرمقبوضہ فرانس کے رہائشی تھے۔ فرانسیسی حکام نے ان میں سے کافی کم افراد کو جرمنی میں بوخین والڈ، ڈاخاؤ اور ریونزبرک جیسے کیمپس میں منتقل کیا تھا۔
جرمنی کے ایکسس پارٹنر رومانیہ کے حکام نے رومانیہ کی سرزمین میں رہنے والے روما کو باقاعدہ طور پر ختم تو نہيں کیا، لیکن رومانیہ کی افواج اور پولیس کے افسران نے1941 اور 1942 میں 26000 روما کو بنیادی طور پر بوکووینا اور بیسارابیا کے ساتھ ساتھ مولڈاویا اور دارالحکومت بخاریسٹ سے جلاوطن کر کے رومانی انتظام کے تحت جنوب مشرقی یوکرین کے ایک حصے، ٹرانسنیٹریا، بھیج دیا۔ جلاوطن ہونے والے ہزاروں افراد بیماری، بھوک اور بدسلوکی سے مارے گئے۔
آزاد ریاست کرویشیا کے حکام نے، جو جرمنی کا ایک اور ایکسس پارٹنر تھا، اور جس کا اقتدار عسکریت پسند علیحدگی پسند اور دہشت گرد اسٹاسا تنظیم کے ہاتھوں میں تھا، ملک کے تقریبا تمام روما، یعنی تقریبا 25000 افراد کو ختم کر ڈالا۔ اسٹاسا کی افواج اور کروئیٹ سیاسی پولیس کے تحت جیسینویک کے کنسنٹریشن کیمپ کے نظام میں تقریبا 15000 اور 20000 کے درمیان روما مارے گئے۔
ہولوکاسٹ میں مارے جانے والے روما کی تعداد کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ تعداد یا تناسب کا تعین نہيں کیا جا سکتا ہے، لیکن تاریخدان اندازہ لگاتے ہيں کہ جرمنوں اور ان کے حامیوں نے یورپ میں رہنے والے تمام روما میں سے 25 فیصد کو ختم کر دیا۔ جنگ سے پہلے یورپ میں رہنے والے ایک ملین سے کچھ کم روما میں سے جرمن اور ان کے ایکسس شرکاء نے 220000 تک مار ڈالے۔
جنگ کے بعد مرکزی اور مشرقی یورپ میں روما کے خلاف امتیاز جاری رہا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی نے طے کیا کہ 1943 سے قبل روما کے خلاف کئے جانے والے اقدام نسلی تعصب کی پالیسی کا نتیجہ نہيں تھے، بلکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف قانونی سرکاری اقدام تھے۔ اس فیصلے سے نشانہ بننے والے ہزاروں روما کے لئے، جنہيں بغیر کسی جرم کے قید کیا گيا تھا، زبردستی بانجھ کیا گيا تھا، اور جرمنی سے جلاوطن کیا گيا تھا۔ معاوضے کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ جنگ کے بعد نازی اقتدار کی تحقیق کی فائلوں کی ذمہ داری بویریا کی دیوانی پولیس کے ہاتھ میں آئی، جس میں عظیم جرمن رائيخ میں رہنے والے روما کی رجسٹریشن بھی شامل تھی۔
1979 کے اختتام میں جا کر مشرقی جرمن وفاقی پارلیمان نے روما کے خلاف نازی تشدد کی وجہ نسلی تعصب کو قرار دیا، جس کی وجہ سے بیشتر روما نازی اقتدار کے دوران پیش ہونے والی تکالیف اور نقصان کے معاوضے کے لئے اہل ہوئے۔ اس وقت تک اہل ہونے والے کئی افراد کا انتقال ہو چکا تھا۔