جرمنی کے مقبوضہ علاقوں میں نازیوں نے یہودی مزدوروں کو بے رحم قتل کا نشانہ بنایا۔ یہودی مزدوروں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک بھی کیا گیا۔ مثال کے طور پر ایس ایس کے آدمیوں نے مذہبی یہودیوں کی داڑھیاں منڈوائيں۔ یہودی بستیاں اور مقبوضہ پولینڈ میں یہودیوں کے جبری مشقت کے کیمپ یہودی مزدوری سے فائدہ اٹھانے کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے۔ مثال کے طور پر لوڈز کی یہودی بستیوں میں نازیوں نے 96 فیکٹریاں کھولیں۔ کام کرنے کی صلاحیت زندگی بچا سکتی تھی، لیکن اکثر یہ صرف عارضی تھا۔ وہ یہودی جنہيں نازی پیداواری کے قابل نہيں سمجھتے تھے، انہيں سب سے پہلے یا تو گولی ماردی جاتی تھی یا جلاوطن کردیا جاتا تھا۔ یہودی مزدوری، یہاں تک کہ جبری مزدوری کو بھی، بے مصرف سمجھا جاتا تھا۔ یہودیوں کو ختم کرنا نازیوں کی اولین ترجیح بن گیا تھا۔

نازیوں نے معاشی فائدے کے لئے "ریاست کے دشمنوں" کی جبری مشقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ خاص طور پر1942-1943 میں اسٹالن گراڈ کی لڑائی میں جرمنوں کی شکست کے بعد، جنگ کے دوران جرمنوں کی معیشیت کے لئے مزدوروں کی کمی ایک اہم مسئلہ بن گئی۔ اس کی وجہ سے جرمن صنعتوں میں قیدیوں کا جبری مزدوروں کے طور پر زيادہ استعمال ہونے لگا۔ خاص طور پر 1943 اور1944 میں صنعتی تنصیبات کے قریب سینکڑوں کیمپ قائم کئے گئے۔

پولینڈ میں آشوٹز اور مرکزی جرمنی میں بوخن والڈ جیسے کیمپ جبری مزدوری کے کیمپوں کے بڑے نیٹ ورکوں کیلئے انتظامی مراکز بن گئے۔ ایس ایس کے اداروں کے علاوہ (مثلاً جرمن گولہ بارود کے خارخانے)، نجی جرمن تنظیمیں مثلاً میسر شمٹ، جنکرز، سیمنز اور آئی جی فاربن نے جنگ کے دوران پیداوار بڑھانے کے لئے جبری مزدوروں کا زیادہ استعمال کرنا شروع کیا۔ ان میں سب سے زیادہ بدنام کیمپ آش وٹز III یا مونو وٹز تھا، جہاں آئی جی فاربن کے مصنوعی ربڑ کے پلانٹ کو جبری مزدور فراہم کئے جاتے تھے۔ تمام حراستی کیمپوں میں قیدیوں سے اتنا کام لیا جاتا تھا کہ وہ کام کے بوجھ کی وجہ سے مرجاتے تھے۔

اہم تواریخ

26 اکتوبر 1939
پولینڈ میں یہودیوں کی جبری مشقت کا آ‏غاز ہوا

ستمبر 1939 میں جرمن افواج کے پولینڈ پر قبضہ کرتے ہی، یہودیوں کو جنگ سے ہونے والے نقصانات کو صاف کرنے اور راستوں کی مرمت کرنے کے لئے جبری مزدورں کے طور پر بھرتی کیا گيا۔ اس عمل کو اکتوبر میں رسمی شکل دی گئی، جب جرمنوں نے مقبوضہ پولینڈ میں چودہ اور ساٹھ سال کے درمیان عمر کے یہودی مردوں کے لئے جبری مشقت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد، یہودی عورتوں اور بارہ سے چودہ سال تک کی عمر کے یہودی بچوں سے بھی جبری مشقت کروائی گئی۔ مقبوضہ پولینڈ میں تمام تر یہودیوں کیلئے مزدوری کیمپ قائم کئے کئے اور یہودی بستی میں یہودیوں کو قابض جرمن حکام کے کام کیلئے خود کو پیش کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہودی عام طور پر سخت حالات میں دن میں دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے تھے اور ان کو اس کے بدلے کچھ معاوضہ نہيں دیا جاتا تھا یا بہت کم دیا جاتا تھا۔

21 مئی 1942
اوش وٹز کےقریب آئی جی فاربن کی فیکٹری کھل گئی

اوش وٹز کے قریب، مونو وچ میں، آئی جی فاربن نے اپنی مصنوعی ربڑ اور پٹرول کی فیکٹری کھولی، جس میں کیمپ سے یہودی جبری مزدوری کا استعمال کیا گيا۔ جرمن کاروباری ادارے آئی جی فاربن نے وہاں حراستی کیمپ کی سستی مزدوری اور قریب میں واقع سائلیسئن کوئلے کی کانوں کا فائدہ اٹھانے کے لئے وہاں فیکٹری قائم کی تھی۔ اس نے 700 ملین رائخس مارکس (یعنی 1942 میں تقریبا 14 لاکھ امریکی ڈالر) سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اوش وٹز III ، جسے بونا یا مونو وٹز بھی کہا جاتا ہے، فیکٹری کے لئے جبری مزدوروں کی فراہمی کے لئے قریب ہی واقع تھا۔ بڑی فیکٹری کے مزدوروں کی متوقع زندگی بہت ہی کم تھی۔ 1945 تک مونو وٹز کی فیکٹری میں تقریبا پچیس ہزار جبری مزدوروں کی موت واقع ہوگئی تھی۔

11 جولائی 1942
سالونیکا، یونان کے یہودیوں کو جبری مشقت کے لئے استعمال کیا گيا

جرمنوں نے سالونیکا میں رہنے والے 18 اور 45 سال کے درمیان عمر کے یہودی مردوں کے لئے لبرٹی سی پر حاضری دینا ضروری قراع دیا، جہاں انہيں جبری مزدوری کے کام دئے گئے۔ نو ہزار یہودی مردوں نے حاضری دی۔ تقریبا دو ہزار کو جرمن فوج کے لئے جبری مشقت کے پراجیکٹس پر لگایا گیا۔ باقیوں کو اس وقت تک حراست میں رکھا گیا جب تک کہ سالونیکا اور ایتھنز کی یہودی برادریوں نے ان کی رہائی کے لئے جرمن حکام کو تاوان کے طور پر ایک بڑی رقم کی ادائيگی نہيں کی۔ ادائيگی کے ایک حصے کے طور پر سالونیکا کے یہودی قبرستان کو شہر کی ملکیت میں دے دیا گیا۔ شہری انتظامیہ نے اسے توڑ کر قبرستان کے پتھروں کو استعمال کر کے اس مقام پر ایک یونیورسٹی تعمیر کی۔