نازیوں نے فعال اجتماعی قتل کیلئے قتل گاہیں قائم کی تھیں۔ حراستی کیمپوں کے برعکس جو بنیادی طور پر نظر بندی اور جبری مزدوری کے مراکز تھے، قتل گاہیں (جن کو "خاتمے کے کیمپ" یا "موت کے کیمپ" بھی کہا جاتا تھا) صرف "موت کی فیکٹریاں" تھیں۔ جرمن ایس ایس اور پولیس نے قتل کے مراکز میں بھی زہریلی گیس یا گولی مار کر تقریبا 2,700,000 یہودیوں کو ہلاک کیا۔ پہلی قتل گاہ چیلمنو تھی جو جرمنی سے ملحق پولینڈ کے حصہ میں دسمبر سن 1941 میں کھولی گئی۔ زیادہ تر یہودی، بلکہ رومی (خانہ بدوش) بھی زہریلی گیسوں سے مار دئے گئے۔ منظم طریقے سے پولینڈ کے یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے سن 1942ء میں نازیوں نے سوبی بور، بالزیک اور ٹریبلیکا قتل گاہیں کھولی جن کو (مجموعی طور پرآپریشن رائن ھارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے)۔ آپریشن رائن ھارڈ کی قتل گاہوں میں ایس ایس اور ان کے مدد گاروں نے مارچ 1942ء اور نومبر 1943ء کے دوران تقریبا 1,526,500 یہودیوں کو ہلاک کردیا۔

تقریبا جتنے بھی جلا وطن یہودی افراد قتل گاہوں میں پہنچے، ان سب کو فوری طور پر ہلاک کرنے کیلئے گیس چیمبروں میں بھیجا گیا تھا۔ سب سے بڑی قتل گاہ آشوٹز برکیناؤ تھی جس میں 1943 کے موسم بہار تک چار گیس چیمبر تھے (جو زائکلون بی زہریلی گیس استعمال کرتے تھے)۔ جلاوطنیوں کی شدت کے دوران چھ ھزار کے لگ بھگ یہودیوں کو آشوٹز برکیناؤ پولینڈ میں روزانہ گیس سے مار دیا جاتا تھا۔ ایک ملین سے زیادہ یہودی اور ہزاروں کی تعداد میں روما، پولیس اور سوویت جنگی قیدیوں کو نومبر 1944 میں گیس دیکر مار دیا گیا۔ ایس ایس قتل کے مراکز کو خفیہ سمجھتے تھے۔ گیس کی کارروائیوں کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے، گیس چیمپروں سے لاشوں کو ہٹانے اور ان کو جلانے کیلئے مخصوص قیدی یونٹوں پر دباؤ ڈالا گیا کچھ قتل گاہوں والے کیمپوں کی زمینوں کو قتل کے لاکھوں واقعات کو چھپانے کیلئے دوبارہ ہموار کیا گيا۔