جیسے ہی اتحادی فوجی نازی جرمنی کے خلاف بھرپور حملوں کے نتیجے میں یورپ کے چاروں طرف پھیل گئے، انہیں ایسے کئی ھزار حراستی کیمپوں کے قیدی ملے جو بھوک اور بیماری کی وجہ سے مر رہے تھے۔ ان نازی کیمپوں کی آزادی کے بعد ہی دنیا کو نازیوں کے ظلم و بربریت کے بارے میں معلوم ہوا۔ سوویت افواج کسی بڑے نازی کہمپ تک پہنچنے والی پہلی افواج تھیں جو جولائی سن 1944 میں پولینڈ میں لبلن کے قریب واقع مجڈانک کیمپ میں پہنچیں۔ سوویت افواج کی تیز پیش قدمی پر حیرت زدہ جرمنوں نے اجتماعی قتل عام کے ثبوت کو چھپانے کیلئے کیمپ کو چھپانے کی کوشش کی۔ موسم گرما سن 1944 میں سوویت فوجی بیلزیک، سوبی بور اور ٹریبلنکا قتل گاہوں تک پہنچ گئے۔ سوویت فوجوں نے آشوٹز کو سن 1945 میں آزاد کرایا جو سب سے بڑا حراستی کیمپ تھا۔ پسپائی کے دوران جرمن فوجوں نے کیمپ میں موجود گوداموں کو تباہ کر دیا۔ جو گودام تباہ نہیں کیے گئے ان میں سوویت یونین کو متاثرین کے ذاتی سامان ملے۔ ان لوگوں نے مثال کے طور پر لاکھوں مردوں کے کپڑے، 800،000 سے زیادہ عورتوں کے کپڑے، اور 14،000 پونڈ سے زیادہ انسانی بالوں کا انکشاف کیا۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فوجیوں نے نازیوں کے اس کیمپ کو خالی کرانے کے چند دنوں بعد 11 اپریل سن 1945 کو جرمنی میں وائمر کے قریب بوخن والڈ حراستی کیمپ کو آزاد کرایا۔ امریکی فوجیوں نے 20،000 سے زیادہ بوخن والڈ میں قید قیدیوں کو آزاد کرایا۔ ان لوگوں نے ڈورامٹلباؤ، فلوسنبرگ، ڈاخاؤ اور ماؤٹ ھاؤسن کو بھی آزاد کرایا۔ برطانوی فوجیوں نے شمالی جرمنی میں واقع حراستی کیمپوں کو آزاد کرایا جن میں نیوئنگامے اور برجن بیلسن بھی شامل تھے۔ یہ لوگ سن 1945 میں اپریل کے وسط میں سیلے کے قریب برجن بیلسن حراستی کیمپ میں داخل ہوئے، تقریبا 60،000 قیدی، جن میں سے زیادہ تر وبائی بیماری کی وجہ سے بری حالت میں تھے، زندہ پائے گئے۔ آزاد کرانے والوں نے نازی کیمپوں میں ناقابل بیان حالات کا مشاہدہ کیا جہاں لاشوں کے انبار بغیر دفنائے ہوئے پڑے ہوئے تھے۔ مقیم لوگوں کی بہت تھوڑی تعداد جو بچ گئی وہ جبری مزدوری اور کھانے کی کمی نیز مہینوں اور سالوں برے سلوک کی وجہ سے ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئی تھی۔ کچھ لوگ تو اتنے کمزور تھے کہ چل بھی نہیں سکتے تھے۔ بیماری ایک دائمی خطرہ تھا اور بہت سارے کیمپوں کو اس لئے جلا دینا پڑا تاکہ وبائی بیماریوں کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ کیمپوں سے بچنے والوں کو واپسی میں طویل اور مشکل راستوں کا سامنا کرنا پڑا۔