22 جون 1941 کو سوویت یونین پر جرمن فوج کے حملے کے بعد ہالوکاسٹ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔ جنگ کی آڑ میں اور جیت کے بارے میں پراعتماد جرمنوں نے یہودیوں کی جبری امیگریشن اور گرفتاریوں سے آگے بڑھ کر اجتماعی قتل کا راستہ اپنایا۔ نازی (ایس ایس) کے یونٹس اور پولیس پر مشتمل اسپیشل ایکشن سکواڈ، جنہيں آئن سیٹزگروپن کہا جاتا تھا، تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی جرمن فوج کا پیچھا کرتے تھے۔ ان کا کام مقبوضہ سوویت علاقوں میں یہودیوں کو قتل کرنا تھا۔ مقبوضہ علاقوں کے کچھ رہائشیوں نے، جن میں سے زيادہ تر یوکرینی، لیوٹوی اور لیتھوینی تھے، امدادی پولیس کے طور پر کام کرکے ان جرمن موبائل قاتل اسکواڈوں کی مدد کی۔

موبائل قتل کے یونٹس نے تیزی سے اپنا کام کیا جس کی یہودیوں کو توقع نہ تھی۔ قاتل کسی شہر یا قصبے میں داخل ہو کر تمام یہودی مرد، عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ جمع کرتے۔ وہ کئی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہوں اور روما (خانہ بدوشوں) کو بھی لے گئے۔ ہدف بننے والے افراد کو اپنا قیمتی سامان اور کپڑے ان کے حوالے کرنے کا حکم دیا جاتا اور بعد میں ان اشیاء کو جرمنی میں استعمال کے لئے بھیج دیا جاتا یا مقامی معاونوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ پھر قاتل اسکواڈ کے ممبران انہيں مفتوح شہروں اور قصبوں کے مضافات میں واقع کھلے میدانوں، جنگلوں اور گھاٹیوں میں لے گئے اور وہاں انہيں گولی مار کر یا گیس کی وینوں میں گیس دے کر ہلاک کردیا اور لاشوں کو اجتماعی قبروں میں پھینک دیا۔

21 ستمبر 1941 کو، جو یہودی سال نو کی شب بھی تھی، ایک موبائل قاتل اسکواڈ ایجسیزسکی ميں داخل ہوا۔ یہ موجودہ لیتھوینیا میں ایک چھوٹا سے قصبہ ہے۔ قتل کے اسکواڈ کے ممبران نے قصبے اور اس کے مضافات سے چار ہزار یہودیوں کو تین یہودی عبادت گاہوں میں جمع کیا اور انہيں دو دن تک وہاں بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ اس کے بعد صرف دو دنوں کی قتل و غارت کے دوران یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قبرستانوں میں لے جایا گيا، انہيں کھلے کھڈوں کے سامنے قطار میں کھڑا کروایا گیا اور پھر ان سب کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ آج ایجسیزسکی میں کوئی یہودی باقی نہيں ہے۔ یہ ان سینکڑوں شہروں، قصبوں اور شٹیٹلز میں سے ایک تھا جس کی یہودی آبادی کو ہالوکاسٹ کے دوران ختم کردیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر یہودی برادریوں کی شاندار ثقافت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئي۔

ان قتل کے اسکواڈز نے دس لاکھ سے زیادہ یہودی اور ہزاروں دوسرے معصوم افراد کو قتل کردیا۔ کیو کے قریب واقع بابی یار پر صرف دو دنوں میں چلائی جانے والی گولیوں سے 34 ہزار کے قریب یہودی مارے گئے۔ عوام الناس میں سے صرف چند ہی ایسے افراد تھے جنہوں نے اپنے یہودی ہمسایوں کو فرار ہونے میں مدد دی۔ بیشتر افراد کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کو بھی ماردیا جائے گا۔

بابی یار اور دوسرے قصبوں میں معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کا قتل عام پاگل آدمیوں یا غنڈوں کا کام نہيں تھا۔ قتل کرنے والے اپنے افسران کے حکم کی پیروی کرنے والے "معمولی" آدمی ہی تھے۔ ان میں سے کئی جرمنی میں بیوی بچے بھی چھوڑ کر آئے تھے۔ افواہوں اور ان کی تربیت نے موبائل قتل کے اسکواڈوں کے کئی ممبران کو سکھایا تھا کہ ان کے ہدف جرمنی کے دشمن تھے۔ قتل کرنے والے اپنے دل و دماغ کو سن کرنے کے لئے کثرت سے شراب پیتے تھے۔ اس کے علاوہ، جب وہ اپنے اعمال کے بارے میں بات کرتے تو وہ اپنے بھیانک جرائم سے اپنے آپ کو دور کرنے کے لئے "قتل و غارت" کے بجائے "خاص سلوک" یا "خاص عمل" جیسے الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔

اہم تواریخ

22 جون 1941
یہودیوں کے خلاف قتل کے اسکواڈ کا استعمال کیا گيا

سوویت یونین پر حملے کے دوران یہودیوں کو مارنے کے لئے جرمن گشتی قاتل یونٹ متعین کئے گئے، جنہيں اسپیشل ڈیوٹی یونٹ یعنی آئن سیٹزگروپن کہا جاتا تھا۔ جیسے جیسے جرمن فوج سوویتیونین کے علاقے میں آگے بڑھتی گئيں، یہ ٹیمیں ان کے پیچھے آئيں اور قتل عام انجام دیتی رہيں۔ سب سے پہلے موبائل قاتل اسکواڈ خاص طور پر یہودی مردوں کو گولی مار دیتے تھے۔ جلد ہی، جہاں جہاں یہ موبائل قتل کی ٹیمیں گئيں، انہوں نے بلالحاظ عمر یا جنس کے تمام یہودی مرد، عورتوں اور بچوں کو گولی ماردی۔ 1943 میں بہار کے موسم تک موبائل قاتل یونٹوں نے دس لاکھ سے زیادہ یہودی، اور ہزاروں حامیوں، روما (خانہ بدوشوں) اور سوویت سیاسی افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

29-30ستمبر 1941
بابی یار میں تقریباً 34 ہزار یہودیوں کو قتل کیا گيا

جرمنوں نے کیو کے یہودی رہائشیوں کو شہر کے باہر دوبارہ آباد ہونے کے لئے میلنک اسٹریٹ پر جمع ہونے کا حکم دیا۔ درحقیقت حاضر ہونے والوں کو میلنک اسٹریٹ سے یہودی قبرستان اور بابی یار نامی ایک کھائی کی طرف لے جایا جارہا تھا۔ یہودیوں کو اپنا قیمتی سامان جرمنوں کے حوالے کرنے، اپنے کپڑے اتارنے اور چھوٹے گروپوں میں کھائی میں اترنے کا حکم دیا گيا۔ جرمن قاتل اسکواڈ اور یوکرینی ذیلی یونٹس نے انہيں قتل کردیا۔ یہ قتل عام دو دن تک جاری رہا۔ اس عمل میں چونتیس ہزار کے قریب یہودی مرد، عورتيں اور بچے مارے گئے۔ آنے والے مہینوں میں بابی یار پر مزید ہزاروں یہودی مارے گئے۔ کھائی میں کئی غیریہودی بھی مارے گئے، جن میں روما (خانہ بدوش) اور سوویت جنگی قیدی بھی شامل تھے۔

یکم دسمبر 1941
قتل کے اسکواڈ کے کمانڈر نے 137،346 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی

"جائيگر رپورٹ" میں ایس ایس کے کرنل کارل جائيگر نے 2 جولائی اور یکم دسمبر 1941 کے درمیان لیتھوینیا میں اپنے یونٹ کے ہاتھوں قتل کے اقدامات کے متعلق اطلاع دی۔ ان کی اطلاع کے مطابق ان کے اسکواڈ نے 137،346 یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ کوونو، یکمرج اور ولنا میں رہنے والے یہودیوں کو قتل عام کے اس سلسلے کے دوران ہلاک کردیا گيا، جو 1941 کے پورے موسم گرما تک جاری رہا۔ لیتھوینیا کے چھوٹے قصبوں اور گاؤں میں رہنے والے تقریباً تمام یہودی مارے گئے۔ جائيگر کی اطلاع کے مطابق تقریباً پینتیس ہزار ہی یہودی باقی رہ گئے جو کوونو، ولنا اور سائیولائی یہودی بستیوں میں جبری مزدوروں کے طور پر موجود تھے۔