A group of young girls pose in a yard in the town of Eisiskes. The Jews of this shtetl were murdered by the Einsatzgruppen on September 21, 1941. Photo taken before September 1941.

گشتی قاتل اسکواڈ

22 جون 1941 کو سوویت یونین پر جرمن فوج کے حملے کے بعد ہالوکاسٹ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔ جنگ کی آڑ میں اور جیت کے بارے میں پراعتماد جرمنوں نے یہودیوں کی جبری امیگریشن اور گرفتاریوں سے آگے بڑھ کر اجتماعی قتل کا راستہ اپنایا۔ نازی (ایس ایس) کے یونٹس اور پولیس پر مشتمل اسپیشل ایکشن سکواڈ، جنہيں آئن سیٹزگروپن کہا جاتا تھا، تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی جرمن فوج کا پیچھا کرتے تھے۔ ان کا کام مقبوضہ سوویت علاقوں میں یہودیوں کو قتل کرنا تھا۔ مقبوضہ علاقوں کے کچھ رہائشیوں نے، جن میں سے زيادہ تر یوکرینی، لیوٹوی اور لیتھوینی تھے، امدادی پولیس کے طور پر کام کرکے ان جرمن موبائل قاتل اسکواڈوں کی مدد کی۔

موبائل قتل کے یونٹس نے تیزی سے اپنا کام کیا جس کی یہودیوں کو توقع نہ تھی۔ قاتل کسی شہر یا قصبے میں داخل ہو کر تمام یہودی مرد، عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ جمع کرتے۔ وہ کئی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہوں اور روما (خانہ بدوشوں) کو بھی لے گئے۔ ہدف بننے والے افراد کو اپنا قیمتی سامان اور کپڑے ان کے حوالے کرنے کا حکم دیا جاتا اور بعد میں ان اشیاء کو جرمنی میں استعمال کے لئے بھیج دیا جاتا یا مقامی معاونوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ پھر قاتل اسکواڈ کے ممبران انہيں مفتوح شہروں اور قصبوں کے مضافات میں واقع کھلے میدانوں، جنگلوں اور گھاٹیوں میں لے گئے اور وہاں انہيں گولی مار کر یا گیس کی وینوں میں گیس دے کر ہلاک کردیا اور لاشوں کو اجتماعی قبروں میں پھینک دیا۔

21 ستمبر 1941 کو، جو یہودی سال نو کی شب بھی تھی، ایک موبائل قاتل اسکواڈ ایجسیزسکی ميں داخل ہوا۔ یہ موجودہ لیتھوینیا میں ایک چھوٹا سے قصبہ ہے۔ قتل کے اسکواڈ کے ممبران نے قصبے اور اس کے مضافات سے چار ہزار یہودیوں کو تین یہودی عبادت گاہوں میں جمع کیا اور انہيں دو دن تک وہاں بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ اس کے بعد صرف دو دنوں کی قتل و غارت کے دوران یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قبرستانوں میں لے جایا گيا، انہيں کھلے کھڈوں کے سامنے قطار میں کھڑا کروایا گیا اور پھر ان سب کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ آج ایجسیزسکی میں کوئی یہودی باقی نہيں ہے۔ یہ ان سینکڑوں شہروں، قصبوں اور شٹیٹلز میں سے ایک تھا جس کی یہودی آبادی کو ہالوکاسٹ کے دوران ختم کردیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر یہودی برادریوں کی شاندار ثقافت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئي۔

ان قتل کے اسکواڈز نے دس لاکھ سے زیادہ یہودی اور ہزاروں دوسرے معصوم افراد کو قتل کردیا۔ کیو کے قریب واقع بابی یار پر صرف دو دنوں میں چلائی جانے والی گولیوں سے 34 ہزار کے قریب یہودی مارے گئے۔ عوام الناس میں سے صرف چند ہی ایسے افراد تھے جنہوں نے اپنے یہودی ہمسایوں کو فرار ہونے میں مدد دی۔ بیشتر افراد کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کو بھی ماردیا جائے گا۔

بابی یار اور دوسرے قصبوں میں معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کا قتل عام پاگل آدمیوں یا غنڈوں کا کام نہيں تھا۔ قتل کرنے والے اپنے افسران کے حکم کی پیروی کرنے والے "معمولی" آدمی ہی تھے۔ ان میں سے کئی جرمنی میں بیوی بچے بھی چھوڑ کر آئے تھے۔ افواہوں اور ان کی تربیت نے موبائل قتل کے اسکواڈوں کے کئی ممبران کو سکھایا تھا کہ ان کے ہدف جرمنی کے دشمن تھے۔ قتل کرنے والے اپنے دل و دماغ کو سن کرنے کے لئے کثرت سے شراب پیتے تھے۔ اس کے علاوہ، جب وہ اپنے اعمال کے بارے میں بات کرتے تو وہ اپنے بھیانک جرائم سے اپنے آپ کو دور کرنے کے لئے "قتل و غارت" کے بجائے "خاص سلوک" یا "خاص عمل" جیسے الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔

Thank you for supporting our work

We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.

گلاسری