سائرٹس لیبر ایجوکیشن کیمپ
جرمنوں نے مئی 1942 سے اکتوبر 1943 تک کیف کے قریب سائرٹس لیبر ایجوکیشن کیمپ چلایا۔ سائریٹس کیمپ مقبوضہ سوویت یوکرین میں نازی دہشت گردی کا ایک اہم مقام تھا۔ ہولوکاسٹ کے شواہد کو تباہ کرنے کی نازی کوششوں میں سائرٹس کے قیدی بھی زبردستی شامل کیے گئے تھے۔
اہم حقائق
-
1
سیرٹس کیف کے مضافات میں لیبر ایجوکیشن کیمپ (Arbeitserziehungslager) تھا۔ جرمنوں نے یہ کیمپ مئی 1942 سے اکتوبر 1943 تک چلایا۔
-
2
سوویت جنگی قیدییوں، مؤیدین، غیر یہودی شہرییوں، اور یہودیوں کو سائرس کیمپ میں حراست میں لے لیا گیا جو ستمبر 1941 کے آخر میں ہونے والی بڑے پیمانے پر فائرنگ کی کارروائیوں سے بچ گئے تھے۔
-
3
جرمنوں نے اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کی۔ 1943 کے موسم گرما میں، انہوں نے سائرٹس کیمپ کے قیدیوں کو حکم دیا کہ وہ بابن یار کی گھاٹی میں اجتماعی قبریں کھودیں اور متاثرین کی باقیات کو جلا دیں۔
تعارف
جرمنوں نے مئی 1942 میں یوکرین کے دارالحکومت کیف کے شمال مغربی مضافات میں سائرٹس کیمپ قائم کیا۔ اس کیمپ کو بابن یار کھائی کے قریب تعمیر کیا گیا تھا، جوکہ ایک قتل گاہ تھا جہاں نازیوں اور ان کے معاونین نے 1941 اور 1943 کے درمیان دسیوں ہزار یہودیوں اور غیر یہودیوں کو قتل کیا تھا۔ سائرٹس کیمپ کی ایک شاخ کیف کے جنوبی مضافات میں بھی واقع تھی جو اس وقت میشیلوکا کا گاؤں تھا۔
سائرٹس کو Arbeitserziehungslager (مزدور کا تعلیمی کیمپ، جس کی اختصار AEL ہے) کے طور پر نامزد کیا گیا تھا، یعنی کہ یہ سرکاری طور پر ایس ایس حراستی کیمپ کے نظام کا حصہ نہیں تھا۔ یہ عام طور پر گیسٹاپو کے زیر تحت تھا، چنانچہ لیبر ایجوکیشن کیمپ کو ان لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے مبینہ طور پر لیبر قانون کی خلاف ورزی کر رکھی تھی۔ قیدیوں کو وہاں محدود وقت (چند ہفتوں سے چند مہینوں تک) تک رکھا جانا تھا۔ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھی، ان کیمپوں میں رہنے اور جبری مشقت کے حالات کے ساتھ ساتھ اموات کی شرح بھی نازی حراستی کیمپوں جیسی ہو گئی۔
سائرٹس میں، قیدیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے اکثر کا تعلق ان کی مزدوری کی کارکردگی سے نہیں تھا۔ انہیں لیبر ایجوکیشن کیمپوں میں زیادہ تر قیدیوں سے زیادہ عرصے تک قید کر کے رکھا گیا۔ سائرٹس میں قیدی انتہائی تشویشناک حالات میں رہتے تھے اور تشدد، بدسلوکی، بیماری اور قتل کے مسلسل خطرے سے دو چار تھے۔ جرمنوں اور کیمپ کے قیدی کارکنوں نے کچھ قیدیوں کو براہ راست قتل کیا، دوسروں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور مہلک سزائیں دیں۔ کچھ قیدی بھوک، سردی یا بیماری سے بھی مر گئے۔
سائرٹس میں قیدی
سائرٹس کے قیدیوں میں مندرجہ ذیل گروہوں کے یہودی اور غیر یہودی مرد اور خواتین شامل تھے:
- سوویت جنگی قیدی (POWs)؛
- سوویت زیرزمین تحریک کے مشتبہ ارکان (اکثر انہیں مؤید کہا جاتا ہے)؛
- کیف شہر، کیف کے علاقے، اور پولٹاوا کے علاقے سے یہودی؛ اور
- غیر یہودی شہری (یوکرینی، روسی اور دیگر) مختلف جرائم کے الزام میں۔
شہادتوں کی بنیاد پر یہ پتہ چلا کہ سائرٹس کیمپ میں کچھ بچے بھی تھے۔ انہیں زیادہ تر ممکنہ طور پر ان کی ماؤں کے ساتھ کیمپ میں لایا گیا تھا۔
جرمنوں نے سائرٹس میں ایک وقت میں 3,000 سے زیادہ افراد کو حراست میں نہیں لیا تھا۔ عام طور پر مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ تھی۔ کیمپ کی کارروائی کے دوران، تقریباً 10,000 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
سائرٹس کی نقشہ نگاری
ایک اندازے کے مطابق سائرٹس کیمپ ایک سابق فوجی چھاؤنی کی جگہ پر دو سے تین مربع کلومیٹر زمین پر پھیلا ہوا تھا۔ کیمپ چاروں طرف سے بجلی کی خار دار باڑ اور نگرانی ٹاورز سے گھر ہوا تھا۔ سائرٹس کا اہتمام لیبر اور لیونگ زون کے مطابق کیا گیا تھا۔ ان علاقوں کو خاردار تاروں سے الگ کیا گیا تھا۔
کیمپ کے آپریشن کے پہلے دو مہینوں میں قیدیوں کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں تھی۔ جرمنوں نے قیدیوں کو لکڑی کی بیرکیں اور دھاتی چھتوں کے ساتھ بڑے ڈگ آؤٹ بنانے پر مجبور کیا۔ ہر ڈگ آؤٹ اور بیریک میں درجنوں قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔
مرد اور خواتین قیدی الگ الگ طور پر رہتے تھے۔ قیدیوں کی شہادتوں کے مطابق، مرد قیدی بڑے ڈگ آؤٹ میں رہتے تھے اور انھیں قیدیوں کے گروپ یا قسم کے ذریعہ منظم کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، ایک "یہودی ڈگ آؤٹ"، ایک "موید ڈگ آؤٹ" اور ایک "طبی ڈگ آؤٹ" تھا۔ خواتین کو کسی ایک بیریک میں رکھا گیا تھا۔ بچے غالباً اپنی ماؤں کے ساتھ رہتے تھے۔
کیمپ انتظامیہ اور حکام
AEL کے طور پر سائرٹس کیمپ کا انتظام سیکورٹی پولیس کے کمانڈر اور ایس ڈی کیو (Kommandeur der Sicherheitspolizei und des SD Kiew, یا KdS کیو) کے زیر انتظام تھا، جوکہ ایس ایس اور پولیس کے درجہ بندی میں ایک طاقتور مقام مانا جاتا تھا۔ جس وقت سائرٹس کیمپ کو قائم کیا گیا تھا، کے ڈی ایس کیو کے عہدے پر ایرک ایرلنگر فائز تھا۔ ایرلنگر ایک بنیاد پرست ایس ایس افسر تھا جس نے پہلے آئن سیٹز کمانڈو 1b کے رہنما کے طور پر متعدد قتل عام کیے تھے۔
ایس ایس میجر پال اوٹو وان راڈومسکی نے کیمپ کے زیادہ تر آپریشن کے لیے سائرٹس کے کمانڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کیمپ انتظامیہ میں دیگر جرمنوں میں ریڈومسکی کے نائب اور کیمپ کی گیسٹاپو برانچ کے ایجنٹ شامل تھے۔ ایس ایس کے ارکان، Volksdeutsche (نسلی جرمن)، اور مقامی معاونین کیمپ کے نگہبان تھے۔
جرمنوں نے سائرٹس کی روزانہ کی کارروائیوں میں سے کچھ کا کنٹرول منتخب قیدی کارکنوں کو سونپ دیا۔ یہ قیدی کارکن ڈگ آؤٹ اور بیرکوں میں نظم و ضبط رکھتے تھے، مزدوروں کے دستوں کی نگرانی کرتے تھے، اور فرار ہونے کو روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ قیدیوں کی جاسوسی کے لیے کیمپ کی گیسٹاپو برانچ کی طرف سے رکھے گئے مخبروں میں دیگر قیدی بھی شامل تھے۔
سائرٹس کیمپ میں روزانہ کی زندگی
سائرٹس میں قیدیوں کے ساتھ کیمپ کے حکام کی طرف سے شدید بدسلوکی کی گئی اور بدتمیزی سے کام لیا گیا۔ قیدیوں کی روزمرہ کی زندگی سخت مشقت، فاقہ کشی، بربریت اور مصائب کی زد میں تھی۔
چوری اور لوٹ مار
چوری اور لوٹ مار پورے نازی کیمپ کے نظام میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سائرٹس میں مختلف نہیں تھا۔ جب قیدی پہلی بار سائرٹس پہنچے تو کیمپ کے حکام نے ان کے کپڑے، جوتے، زیورات اور دیگر قیمتی سامان کو ان سے چھین لیا۔ وہ قیدی جن کے اہل خانہ اس علاقے میں رہتے تھے وہ کیمپ کے محافظوں کو رشوت دے کر کبھی کبھار خوراک، کپڑے یا ادویات کے پارسل وصول کرلیا کرتے تھے۔ ان اشیاء کو بھی اکثر لوٹ لیا جاتا تھا یا چوری ہوجاتی تھیں۔
ذلت اور زیادتی
کیمپ کے حکام نے خوف پیدا کرنے اور آرڈر کو نافذ کرنے کے لیے قیدیوں کی تذلیل کی اور جسمانی طور پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس طرز عمل کے ایک حصے کے طور پر، سائرٹس کے سابق قیدیوں نے اطلاع دی کہ انہیں مشکل، ظالمانہ، اور توہین آمیز کیلستھینک مشقیں کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان مشقوں میں ہاتھ یا پیروں کا استعمال کیے بغیر اپنے پیٹ کے بل یا اسکواٹنگ کرتے ہوئے مارچ کرنا شامل تھا۔ جسمانی زیادتی کی دیگر اقسام میں مار پیٹ کے ساتھ ساتھ محافظ کتوں کے حملے بھی شامل تھے۔ اس وحشیانہ سلوک کے نتیجے میں کچھ قیدی ہلاک ہوگئے۔
فاقہ کشی
پورے کیمپ میں فاقہ کشی پھیلی ہوئی تھی۔ سائرٹس میں قیدیوں کی اکثریت کو روزانہ صرف ایک یا دو مرتبہ ناکافی کھانا ملتا تھا، عام طور پر پتلا سوپ۔ ایک قیدی نے بتایا کہ انہیں روزانہ تھوڑی سی روٹی دی جاتی تھی۔ (تقریباً 100– 150 گرام یا 3.5–5.3 اونس)۔ دوسرے کھانوں کی جگہ قیدیوں نے جنگلی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ابالے ہوئے پانی سے بنی ہوئی چیز کو کافی کے متبادل کے طور پر پیا۔ اس طرح کے "کھانے" قیدیوں کو کھلانے اور تکلیف دہ، تھکا دینے والی اور جان لیوا مشقت کے دوران انہیں برقرار رکھنے کے لیے ناکافی تھے۔ بعض شہادتوں کے مطابق قیدی اتنے بھوکے تھے کہ وہ جنگلی جڑی بوٹیاں اور گھاس، کتے، بلیاں اور چوہے کھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔
بیمار اور کمزور قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور قتل
کیمپ میں بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بیمار قیدیوں کو ایک خصوصی ڈگ آؤٹ میں رکھا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو طبی دیکھ بھال یا کھانا تک نصیب نہ ہوتا تھا۔ ہر روز کیمپ کے حکام ان قیدیوں کو قتل کردیا کرتے تھے جو اتنے بیمار اور کمزور تھے کہ وہ کام نہ کرسکتے تھے۔ وہ اکثر اس قتل کو دوسرے قیدیوں کے سامنے انجام دیا کرتے تھے۔ نتیجے کے طور پر، قیدیوں کو کمزوری یا بیماری کی علامات ظاہر ہونے کا ڈر سا لگا رہتا تھا۔
دوسرے قیدیوں کا قتل
قیدیوں کو باقاعدگی سے قوانین کی معمولی خلاف ورزی پر پھانسی یا قتل کیے جانے کے امکانات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیمپ کے حکام قیدیوں کو مزاحمت کرنے، فرار ہونے کی کوشش کرنے یا مزید کام نہ کرنے کی وجہ سے گولی مار دیتے تھے۔ کیمپ کے حکام اور محافظوں نے کچھ قیدیوں کو بغیر کسی وجہ کے بھی موت کے گھاٹ اتارا۔
یہودی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک
سائرٹس میں یہودیوں کے ساتھ دوسرے قیدیوں کے مقابلے میں بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ کیمپ کی جرمن اور قیدی انتظامیہ دونوں کے ارکان نے یہودیوں کو اس سے بھی زیادہ شدید ذلت اور جسمانی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہودی قیدیوں کو غیر یہودی قیدیوں کے بالمقابل کہیں کم خوراک ملتی تھی۔
جبری مشقت
سائرٹس میں روزمرہ کی زندگی کے پرتشدد اور بدسلوکی کے حالات قیدیوں کی مزدوری کے حالات تک بھی پھیل گئے۔ سائرٹس کے قیدیوں نے فاقہ کشی کی سطح کی خوراک پر معمول کی تھکا دینے والی بھاری محنت و مشقت کی۔ انہوں نے مناسب آلات یا لباس کے بغیر اور ہر قسم کے موسم میں کام کیا۔ ان کے کام کی جگہوں پر، قیدی بے ہودہ زیادتی اور قتل کا نشانہ بنے رہتے تھے۔ کام کرتے ہوئے چوٹیں لگنے سے بھی قیدی مارے گئے تھے۔
قیدیوں کو مختلف قسم کی مشقت پر مامور کیا گیا تھا۔ وہ قیدی جو ہنر مند کاریگر تھے، خاص طور پر یہودی، وہ بڑھئی یا ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے تھے۔ کچھ عورتیں کھانا پکاتی تھیں، جب کہ کچھ سخت مشقت بھرے کام کرتی تھیں۔ میشیلوکا میں سائرٹس برانچ میں قیدیوں کو کھیتی باڑی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کیف میں کیمپ کے دروازوں کے باہر، قیدیوں نے ملبہ صاف کیا اور پیدل گاہ اور سڑکوں کی مرمت کی۔ مرکزی سائرٹس کیمپ کی حدود میں قیدیوں کو ڈگ آؤٹ اور بیریک بنانے کے ساتھ ساتھ درختوں کو اکھاڑ پھینکنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
رئیسا (جسے ریسا بھی کہا جاتا ہے) ایک یہودی قیدی کیپنس نے، جو سائرٹس میں ایک غیر یہودی کے طور پر گزر رہا تھا، یاد کرتے ہوئے بتایا:
"ہم کام پر جاتے تھے، وہ ہمارا پیچھا کرتے تھے۔ ہم نے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، وہاں کی ہر چیز کو اکھاڑ پھینکا۔ …. یہودی بریگیڈ کو پتھروں کے ساتھ ایک ویگن کو چلانا پڑتا تھا، بلا رکے انہیں اس ویگن... کو چلانا پڑتا تھا اور \[گیت] "لیمنس" گانا پڑتا تھا۔ اور جیسے ہی وہ "لیمنس" گانا بند کرتے، وہ \[قیدی کارکن] لیزا \[لوگینووا] یا ویرا بونڈارینکو کوڑے کے ساتھ \[ان کے پاس] آتے اور انھیں مارتے پیٹتے...
سونڈاریکشیون 1005: بابن یار میں نازی جرائم کو چھپانا
1943 کے موسم گرما میں سوویت سرخ فوج کے کیف کے قریب پہنچنے کے بعد، جرمنوں نے کور اپ آپریشن کو نافذ کیا جسے سونڈریکشیون 1005 \[خصوصی آپریشن 1005] کہا جاتا ہے۔ سونڈریکشیون 1005 کا مقصد یورپ بھر میں جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں اور دیگر لوگوں کے قتل عام کو چھپانا تھا۔ کیف میں سونڈریکشیون 1005 کے ایک حصے کے طور پر، جرمنوں نے تقریباً 300 سائرٹس کے قیدیوں کو حکم دیا کہ وہ بابن یار کے قتل کے مقام پر اجتماعی قبروں کو کھود کر مقتولین کی باقیات کو جلا دیں۔
سوویت پراسیکیوٹرز کی جانب سے نیورمبرگ کے بین الاقوامی فوجی ٹریبونل میں جمع کرائی گئی شہادتوں کے مطابق، سائرٹس کے قیدیوں کے پیروں میں بیڑیاں باندھ کر روزانہ 12 سے 15 گھنٹے کام کرنے پر انھیں مجبور کیا جاتا تھا۔ قیدی دستی طور پر بابن یار کھائی سے باقیات کو نکالتے اور جرمن کام کو تیز کرنے کے لیے مشینوں کا استعمال کرتے۔ جرمنوں نے لاشوں کو لوٹنے اور بالیاں، انگوٹھیاں اور سونے کے دانتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے خصوصی قیدی عملے کو منظم کر رکھا تھا۔
قیدیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ قریبی یہودی قبرستان سے گرینائٹ کی یادگاروں اور قبروں کے پتھروں پر بڑی، عارضی شمشان چتیں بنائیں۔ لاشوں کی متعدد تہیں بنائی گئیں، جلانے والی لکڑیوں کے ساتھ انھیں الگ کیا گیا، ان پر ایندھن کا چھڑکاؤ کیا گیا اور جلا دیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بابن یار کے جرائم کو چھپا دیا جائے، جرمنوں نے بچی ہوئی ہڈیوں کو چور چور کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا۔ اس کے بعد راکھ کو بابن یار کی گھاٹی میں بکھیر دیا گیا۔ ستمبر 1943 کے آخر تک قبر کشائی اور تدفین کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
سائرٹس کے مٹھی بھر قیدی جنہوں نے بابن یار میں Aktion 1005 میں حصہ لیا تھا, فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد باقی قیدیوں کو جرمنوں نے قتل کر دیا تھا۔
سائرٹس کیمپ کا خاتمہ
ستمبر 1943 میں جرمنوں نے منتخب قیدیوں کو سائرٹس سے جرمنی منتقل کرنا شروع کردیا۔ جن قیدیوں کو انخلاء کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا انہیں گولی مار دی گئی۔ سائرٹس لیبر ایجوکیشن کیمپ نے اس موسم خزاں کے بعد کام بند کر دیا۔
ریڈ آرمی نے 6 نومبر 1943 کو کیف پر دوبارہ قبضہ جمالیا۔ اس کے فوراً بعد، سوویت حکام نے بابن یار کے قتل عام کی جگہ اور سائرٹس کیمپ دونوں کی تحقیقات کیں۔ سائرٹس کیمپ میں، ان تحقیقات نے سینکڑوں متاثرین کے ساتھ گڑھوں کا پردہ فاش کردیا۔ سائرٹس کے دیگر قیدیوں کی لاشیں قریبی بابن یار کھائی میں ملیں جہاں کیمپ کے کارکنوں نے انہیں گولی ماری تھی۔
ایک اندازے کے مطابق سائرٹس میں زیر حراست 10،000 قیدیوں میں سے کم از کم 5،000 قیدی وہاں مر گئے تھے یا انھیں مار دیا گیا تھا۔
جنگ کے بعد کا انصاف اور یادگاری
فروری 1946 میں، نیورمبرگ میں بین الاقوامی فوجی ٹریبونل کے دوران، استغاثہ نے جنگی جرائم اور دیگر جرائم کے الزام میں 24 سرکردہ جرمن اہلکاروں کے خلاف ثبوت کے طور پر سابق سائرٹس قیدیوں کی شہادتوں کو پیش کیا۔
1991 میں کیف کے اندر سائرٹس کیمپ کے متاثرین کے لیے ایک یادگار عمارت کو وقف کیا گیا۔
فٹ نوٹس
-
Footnote reference1.
کپنس، ریسا انٹرویو 28728 ۔ مرینا ٹیمکینا کا انٹرویو۔ تاریخ کی بصری آرکائیویو ائس سی، شوآہ فاؤنڈیشن، 11 اپریل 1997۔ 31 جنوری 2023 کو دیکھا گیا۔ https://vha.usc.edu/testimony/28728