دوسری جنگ عظیم کے دوران ، نازیوں کے شکار یہودی اور دوسرے لوگوں کو بچانا امریکی حکومت کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ سام دشمنی (یہودیوں کے خلاف تعصب یا نفرت)، تنہا کر دینے کے اقدام، اقتصادی دباؤ، اور اجنبیوں کے ڈر کی وجہ سے امریکہ کی پالیسی نے پناگزینوں کے لئے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ویزے حاصل کرنا مشکل کر دیا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نسل کشی کی خبروں کو شا‏ئع کرنے میں بھی سست روی سے کام لیا۔ اگست 1942 میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ایک کیبل موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ نازی یورپی یہودیوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ رپورٹ جن کیلئے تھی اُن تک نہیں ہینچائی گئی۔ یہ امریکی یہودی لیڈر اسٹیفن وائز تھے۔ وائز کو یہ رپورٹ برطانوی ذرائع سے موصول ہوئی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے وائز سے اس ریورٹ کا اعلان نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکہ ہالوکاسٹ کے متاثرین کو بچانے کے لئے فیصلہ کن کاروائی کرنے میں ناکام رہا۔ 19 اپریل، 1943 کو جنگی پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے لئے برطانوی اور امریکی نمائندگان کی برمودا میں ملاقات ہوئی۔ اس کانفرنس سے کوئی بھی ٹھوس تجاوہز سامنے نہيں آئیں۔ اسی سال میں پولش زیرزمین کوریر جان کرسکی نے صدر فرینکلن ڈی۔ روزویلٹ کو یہودیوں کے اس اجتماعی قتل عام کی خبر دی۔ بہر حال امریکی حکام نے 1944ء میں روزویلٹ کے جنگی پناہ گزین بورڈ قائم ہونے تک پناہ گزینوں کو بچانے کیلئے کسی قسم کی کارروائی شروع نہیں کی۔ اس وقت تک ہالوکاسٹ میں بیشتر ہلاک ہو جانے والے یہودی بلاک ہوچکے تھے۔ سن 1944 کے بہار کے موسم تک اتحادی آشوٹز۔برکیناؤ کے کیمپ میں یہودیوں کے قتل و غارت کے لئے زہریلی گیس کے استعمال سے واقف ہو چکے تھے۔ بعض یہودی قائدین امریکی حکومت سے گیس چیمبر اور کیمپ تک جانے والی ریل کی پٹریوں پر بمباری کی ناکام گزارشیں کرتے رہے۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان کے طیارے ان اہداف پر ہوائی حملے جاری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہيں، اور یہ کہ اتحادی افواج، جنگ جتنی جلدی ممکن ہو جیتنے کے لئے صرف فوجی اہداف پر بمباری کرنے کی ذمہ دار ہیں۔