دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی اور مقامی دونوں عدالتوں نے جنگی مجرموں پر مقدمہ چلایا۔ بین الاقوامی فوجی عدالت(آئی ایم ٹی) میں جرمنی کے بڑے سرکاری ملازمین کا مقدمہ نیورمبرگ، جرمنی میں چلایا گیا، جس میں چار اتحادی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ عظمی، فرانس اور سوویت یونین) کے جج شامل تھے۔ 18 اکتوبر،1945 اور یکم اکتوبر،1946 کے درمیان آئی ایم ٹی نے 22 "اعلی" جنگی مجرموں پر سازش، امن و سلامتی کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر مقدمہ چلایا۔ ان میں سے بارہ مجرمین کو موت کی سزا سنائی گئی، تین ملزماں کو عمر قید کی اور چار کو 10 سے 20 سال تک کی سزا سنائی گئی۔ آئی ایم ٹی نے امریکی عدالت نے 12 مزید اعلی جرمن سرکاری لوگوں کو نیورمبرگ میں سزا دی۔ نمایاں ڈاکٹر، موبائل قتل کے یونٹوں کے ارکان، جرمن انصاف انتظامیہ اور جرمن دفتر خارجہ کے ارکان، جرمن فوج کی ہائی کمانڈ کے ارکان ، اور معروف جرمن صنعت کار ان لوگوں میں سے تھے جن کے خلاف مقدمے چلائے گئے۔

سن 1945ء کے پوسٹ جنگی جرائم کی سزاؤں میں سب سے زیادہ بڑی تعداد نچلے درجہ کے سرکاری لوگ اور آفسر شامل تھے۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں، چاروں اتحادی طاقتوں نے جرمنی اور آسٹریا میں ان کے زیر قبضہ علاقوں میں مقدمے منعقد کئے۔ حراستی کیمپ کے نظام کے متعلق جو معلومات ہم تک پہنچی ہيں وہ مقدموں کے دوران ثبوت اور گواہ کی گواہیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ جرمن وفاقی جمہوریہ (مغربی جرمنی) اور جرمن ڈیموکریٹک جمہوریہ (مشرقی جرمنی) نے اپنی اپنی آزاد ریاستیں قائم کرنے کے بعد آنے والی دہائیوں میں نازی دور کی طرفداری کرنے والوں کے خلاف مقدمے چلائے۔ بہت سی اقوام جن پر جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا، یا وہ اقوام جنہوں نے شہریوں، خاص طور پر یہودیوں، کو ہلاک کرنے میں جرمنی کا ساتھ دیا انہوں نے بھی جنگ کے بعد مقدمے چلائے۔ پولینڈ، سابقہ چیکوسلواکیا، سوویت یونین، ہنگری، رومانیہ، اور فرانس ان چند ممالک میں سے تھے جنہوں نے ہزاروں ملزموں پر مقدمہ چلایا - جن میں جرمن اور مقامی شرکاء دونوں شامل ہیں۔ 1961ء میں اسرائیلی عدالت میں ایڈولف آئخمین کے مقدمے (یورپی یہودیوں کی ملک بدری میں چیف آرکیٹیکٹ پر دنیا بھر کی توجہ مرکوز تھی۔ تاہم ، نازی دور کے بہت سے مجرموں کے خلاف نہ تو مقدمہ چلایا گیا اور نہ ہی انہیں ان کے جرم کی سزا ملی بلکہ وہ اپنی زندگی عام طور پر بسر کرنے لگے۔ جرمن اور حلیف جنگی مجرموں کی تلاش آج بھی جاری ہے۔