مجلیک وارسا سے 35 میل مشرق کی جانب ایک چھوٹے گاؤں کالوسزن میں رہنے والے یہودی والدین کے تین بچوں میں سے دوسرے نمبر پر تھا۔ کالوسزن میں زیادہ تر یہودی آباد تھے۔ مجلیک کے والد تھوک گروسری اسٹور، ایک ریستوران اور گیس اسٹیشن کے مالک تھے جو سب کے سب ایک مصروف شاہراہ پر واقع تھے۔ مجلیک ایک سرکاری ایلیمنٹری اسکول جاتا تھا اور مذہبی تعلیم بھی حاصل کرتا تھا۔
1933-39: میرے دوست منڈیل، سارہ، ایڈم اور مجھے سیاست کے بارے میں بحث کرنے کا شوق تھا۔ ہم نے پولش پروپیگنڈا سنا کہ جرمن ٹینک گتے کے بنے ہوئے ہیں۔ پھر جب میں 19 برس کا ہوا تو جنگ شروع ہو گئی۔ میرے والد، میرا بھائی اور میں مشرق کی سمت میں روس کی جانب فرار ہو گئے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ جرمن ہمیں جبری مشقت کیلئے کہیں دور نہ بھیج دیں۔ مگر جب ہم نے کالوسزن میں لڑائی شروع ہونے کے بارے میں سنا تو ہم واپس لوٹ گئے۔ ہم نے اپنی والدہ کو بخیریت پایا۔
1940-44: 1942 کے آخر میں جب میں نے سنا کہ جرمن یہودی آدمیوں کو جبری مشقت کے کیمب میں جلاوطن کرنے کیلئے پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں تو میں کالوسزن کی یہودی بستی سے فرار ہو گیا۔ 18 جنوری 1943 کو میں نے اپنے کزنوں کے ساتھ رہنے کیلئے وارسا کی یہودی بستی میں چھپ کر داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ میں ایک راؤنڈ اپ کے دوران پکڑا گیا اور مجھے ٹریبلنکا کے موت کے کیمپ کی جانب روانہ ہونے والی ٹرین میں مویشویں کی گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ ٹرین کی رفتار بہت تیز تھی اور گارڈ ٹرین کی چھت پر فرار ہونے والے افراد کو گولی سے مارنے کیلئے تیار تھے۔ اس کے باوجود بھی مجھے خطرہ مول لینا پڑا۔ میں نے کسی کو مجھ سے پہلے ٹرین سے کودتے دیکھا۔ پھر میری باری تھی۔
مجلیک نے چلتی ہوئی ٹرین سے چھلانگ لگا دی اور پیدل وارسا لوٹ گیا۔ بعد میں اس کو مجڈانیک اور آش وٹز کیمپوں میں جلا وطن کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ امریکہ میں آباد ہو گيا۔
آئٹم دیکھیںپانچ بچوں میں سے چوتھے نمبر پر کاٹو بوڈاپیسٹ سے پانچ میل دور اُجپیسٹ میں فرنیچر کی ایک کامیباب دکان اور لکڑیوں کے گودام کے یہودی مالکان کے گھر پیدا ہوئی۔ بچپن میں کاٹو کو اپنے بڑے گھر کے خاندانی "آرکسٹرا" میں وائلن بجانے اور گانا گانے میں مزہ آتا تھا۔ وہ کھیلوں کی بھی شوقین تھی۔ اسے تیرنا، سائیکل چلانا اور ٹینس کیھلنا بھی پسند تھا۔ اسے دریائے دانوب میں اپنے دوستوں کے ساتھ کشتی چلانا سب سے زیادہ پسند تھا۔
1933-39: جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو میں بوڈاپیسٹ کے شمال مشرق میں واقع زیگیواپل فلوا نامی ایک قصبے میں نقل مکانی کر کے چلی گئی۔ وہاں صرف پانچ یا چھ یہودی خاندان رہتے تھے۔ میرے شوہر کا ایک بڑا جنرل اسٹور تھا اور میں وہاں کیشئر کے طور پر کام کرتی تھی۔ 1939 تک ہم نوٹری، پوسٹ ماسٹر اور دوسرے دستوں کے ساتھ سیر کرنے اور دیگر آؤٹنگ سے لطف اٹھاتے تھے۔ نازی نوجوان رات کو سام دشمن نعرے لگا کر اور ہماری کھڑکوں پر زور زور سے ہاتھ مار کر ہمارے حواس گم کر دیتے تھے۔ ان میں نوٹری کا بیٹا بھی شامل تھا۔
1940-44: 19 مارچ 1944 میں جرمنوں نے ہنگری پر حملہ کیا۔ کچھ مہینوں بعد مجھے اور میرے چھوٹے بچے کو جلا وطن کر دیا گیا۔ میں پورے تین بھیانک دن تک مویشیوں کی گاڑی میں پھنسی رہی۔ میں سینڈر کے ساتھ ایک سہیلی کے بچے کو بھی دودھ پلاتی تھی۔ آش وٹز میں ٹرین سے اترتے وقت ایک آدمی نے مجھ سے آہستہ سے کہا "اپنے بچے کو ایک بوڑھی عورت کے حوالے کر دو جو تمھارے کام کرنے کے دوران اس کا خیال رکھے گی۔ شام کو تم اس کو پھر سے دیکھو گی" اس سے مجھے کچھ اطمنان ملا اور میں نے اپنے سینیکا کو ایک بوڑھی عورت کے حوالے کر دیا اور اس کی منت کی کہ وہ اس کا خیال رکھے۔
34 سالہ کاٹو کو جبری مشقت کیلئے منتخب کر لیا گيا۔ اسے بعد میں معلوم ہوا کہ بوڑھوں اور چھوٹے بچوں کو پہنچتے ہی گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گيا۔ کاٹو کو 1945 میں ماؤتھ ہاؤسن کیمپ سے آزاد کرا لیا گيا۔
آئٹم دیکھیںزوزانا کوسیچ شہر میں ہنگری زبان ہولنے والے یہودی والدین کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ وہ خاندان کی چہیتی تھی اور اسے زوزی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے والد درزی تھے اور ان کا کارخانہ گروئنبرگر خاندان کے اپارٹمنٹ میں ہی ہوا کرتا تھا۔
1933-39: نومبر 1938 میں جب زوزانا 5 برس کی تھی، ہنگری کی افواج نے کوسیچ پر قبضہ کر کے اسے ہنگری کا ایک حصہ بنا دیا۔ ہنگری کے لوگوں نے شہر کا نام بدل کر کاسا رکھ دیا۔ ہنگری کی حکومت کے نازی جرمنی کے ساتھ دوستی کے تعلقات تھے اور اس نے کوسیچ میں یہودی مخالف قوانین متعارف کروائے۔
1940-44: 1941 میں زوزانا کے اسکول جانے کے ایک سال بعد ہنگری کے حکام نے گروئنبرگر خاندان کو دیگر یہودی خاندانوں سمیت ہنگری کے دوسرے حصوں میں واقع کمیپوں میں منقتل کر دیا۔ گروئنبرگر خاندان کو آنے والے موسم بہار میں چھوڑ دیا گیا اور وہ کوسیچ لوٹ گئے مگر جلد ہی زوزانا کے بھائی اور والد کو جبری مشقت کیلئے پکڑ کر لے جایا گیا۔ 1944 میں کوسیچ میں رہنے والے بارہ ہزار یہودیوں کو جن میں زوزانا اور اس کی والدہ اور بہن شامل تھے، جرمنوں کے ساتھ تعاون کرنے والے ہنگری کے لوگوں نے پکڑ لیا۔ ان کو شہر کے کنارے واقع اینٹوں کے کارخانے میں بھیج دیا گیا اور آش وٹز کی جانب روانہ ریل گاڑیوں میں سوار کر دیا گیا۔
آش وٹز پہنچتے ہی مئی 1944 میں زوزانا اور اس کی والدہ کو گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ زوزانا کی عمر اُس وقت 11 سال تھی۔
آئٹم دیکھیںولاڈکا بنڈ (یہودی سوشلسٹ پارٹی) کی زوکنفٹ یوتھ موومنٹ سے وابستہ تھیں۔ وہ وارسا گھیٹو کی خفیہ یہودی لڑاکا تنظیم (زیڈ او بی) کی رکن کی حیثیت سے فعال تھیں۔ دسمبر 1942 میں اُنہیں وارسا کے پولش حصے آرین سے باہر اسمگل کیا گیا تاکہ وہ ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں اور بچوں اور بڑوں کیلئے چھپنے کی خفیہ جگہیں تلاش کر سکیں۔ وہ خفیہ یہودی تنظیم، کیمپ کے یہودیوں، جنگلوں اور دیگر گھیٹو کیلئے فعال کورئر بن گئیں۔
آئٹم دیکھیںروتھ سن 1938 میں کرسٹل ناخٹ ("ٹوٹی ہوئے شیشوں کی رات") کے بعد نیدرلنڈ چلی گئی۔ اسے اور اس کے والد کو امریکہ جانے کی اجازت مل گئی تھی لیکن جرمنی نے مئی سن 1940 میں نیدرلنڈ پر حملہ کر دیا اور یوں وہ لوگ نہیں جا سکے۔ روتھ کو سن 1943 میں ویسٹ بروک کیمپ میں اور سن 1944 میں جرمنی کے برجن بیلسن کیمپ میں جلاوطن کیا گیا۔ اتحادیوں کے ساتھ ایک تبادلے کے معاہدہ کے ٹوٹنے کے بعد روتھ کو 1945 میں فرانسیسی فوجوں کی طرف سے رہائی حاصل ہونے تک سوئیس سرحد کے قریب رکھا گیا۔
آئٹم دیکھیںسن 1944 میں ہنگری پر جرمنی کے قبضے کے بعد بارٹ کو اپنے شہر میں قائم گی گئی ایک یہودی بستی میں ڈال دیا گيا۔ سن 1944 میں مئی سے جولائی کے درمیان جرمنی نے یہودیوں کو ہنگری سے مقبوضہ پولینڈ کے آش وٹز حراستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا۔ بارٹ کو مویشیوں کی گاڑی میں ڈال کر آش وٹز میں جلاوطن کیا گيا۔ آش وٹز میں اسے جبری مشقت کے لئے منتخب کیا گيا اور ایک کوئلے کی کان میں کھدائی کرنے پر لگادیا گيا۔ جنوری سن 1945 میں جیسے ہی سوویت فوجیوں نے آش وٹز کیمپ کے طرف بڑھنا شروع کیا، جرمنوں نے زیادہ تر قیدیوں کو کیمپ کے باہر جبراً موت کے مارچ پر بھیج دیا۔ کیمپ کے شفاخانے میں متعدد بیمار قیدیوں کے ساتھ بارٹ ان چند لوگوں میں تھا جو آزادی کے وقت کیمپ میں باقی رہ گئے تھے۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.