ماریہ مشرقی رومانیہ کے دارالحکومت مولداویہ (لاسی) میں غریب خانہ بدوش والدین کے چار بچوں ميں سے ایک تھیں۔ اُن کے گھر والے ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جہاں رومانوی اور خانہ بدوش دونوں ہی رہتے تھے۔ ماریہ کے گھر میں ایک سور اور کچھ مرغیاں پلی ہوئی تھیں۔ اُن کے والد گانے گا کر اور مولداویہ کے دیہات میں واقع کچھ شراب خانوں میں کام کر کے روزی روٹی کماتے تھے۔
1933-39: میرے والدین مجھے اسکول نہيں بھیج سکتے تھے۔ گزارہ کرنے کے لئے میری بہن، بڑے بھائی اور میں ایک شراب خانے کے لئے انگور چننے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ کام موسم کے لحاظ سے ہوتا تھا اور ہمیں ہفتے کے حساب سے اجرت ملا کرتی تھی۔ ہم صبح 5 بجے سے شام تک بہت محنت سے کام کرتے تھے۔
1940-44: جب میری عمر 16 سال تھی، میرے والد کو سوویت یونین کے خلاف لڑائی کرنے کے لئے رومانیوں نے فوج میں بھرتی کر لیا۔ اگلے سال رومانوی پولیس نے لاسی کے خانہ بدوشوں کو جمع کر کے بھیڑ بکریوں کی گاڑی میں مشرق کی طرف بھیج دیا۔ ہمیں ٹرانسنسٹریا میں اتارنے کے بعد ایک فارم لے جایا گیا جہاں ہمیں مرنے کے لئے کھلے کھیتوں میں چھوڑ دیا گیا۔ میری بہن وہاں انتقال کر گئی۔ میرے شوہر سٹیفن بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ اتفاق سے میرے والد کا یونٹ قریب ہی تھا اور 1943 میں 31 دسمبر کی شام کو وہ ہمیں ایک ٹروپ ٹرین میں بٹھا کر خاموشی سے رومانیہ واپس لے آئے۔
لاسی میں جنگ کے بعد ماریہ زندہ بچ گئیں۔ جنگ کے بعد وہ اور اُن کے شوہر لاسی میں دوبارہ بس گئے۔
آئٹم دیکھیںسٹیفن مشرقی رومانیہ کے دارالحکومت مولداویہ (لاسی) میں خانہ بدوش والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ اُن کے گھر والے ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جہاں رومانوی اور خانہ بدوش دونوں ہی رہتے تھے۔ سٹیفن کے والد رستورانوں میں گٹار بجا کر گزربسر کرتے تھے۔ سٹیفن نے بچپن میں وائلن بجانا سیکھا اور وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ کام کرتے تھے۔
1933-39: میں جب بڑا ہو گیا اور اکیلے کام کرنے کے قابل ہو گیا تو میں نے اپنے والد کے ساتھ کام کرنا چھوڑ کر ایک اور نوجوان کے ساتھ رستورانوں میں کام کرنا شروع کیا۔ ہم مولدویہ بھر میں کام کرتے تھے۔ 1939 میں جنگ چھڑنے کے بعد کاروباروں کو بہت نقصان ہوا اور کئی رستوران بند ہونے لگے۔ مجھے گزر بسر کرنے کے لئے کھیتوں پر کام کرنا پڑ گیا۔
1940-44: 1942 میں رومانوی پولیس نے لاسی کے خانہ بدوشوں کو جمع کر کے بھیڑ بکریوں کی گاڑی میں مشرق کی طرف بھیج دیا۔ ہم ٹرانسنسٹریا میں اترے اور ہمیں کھلے کھیتوں میں لے جایا گیا، جہاں ہمیں ناکافی راشن دے کر بھوکا مار دینے کی کوشش کی گئی۔ میری بیوی نے مجھے بھاگ جانے کی ترغیب دی۔ میں اپنا وائلن ساتھ لے گیا۔ میں سامان کی گاڑی میں چڑھ کر اوڈیسا پہنچ گیا اور وہاں ہوٹل میں گٹار بجانے لگا، لیکن مجھے اپنی بیوی اور بہن کو چھوڑنے کا افسوس کھائے جا رہا تھا۔ 1944 میں مجھے حراست میں لیا گیا اور رومانوی فوج میں بھرتی کیا گیا۔
جنگ کے بعد سٹیفن کو لاسی میں اپنی بیوی دوبارہ مل گئی۔ اُنہوں نے 1983 میں ملازمت سے سبکدوش ہونے تک موسیقار کی حیثیت سے کام کیا۔
آئٹم دیکھیںکارل مشرقی آسٹریہ کے گاؤں ویمپرزڈورف میں رہنے والے رومن کیتھولک خانہ بدوش والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سے چوتھے تھے۔ سٹوجکا خاندان کا تعلق خانہ بدوشوں کے ایک قبیلے سے تھا جسے لووارا روما کہا جاتا تھا جو جگہ جگہ پھر کر گھوڑے بیچتے تھے اور یوں اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ وہ ایک سفری فیملی ویگن میں رہتے تھے اور سردیاں آسٹریہ کے دارالحکومت ویانا میں گزارتے تھے۔ کارل کے آباواجداد 200 برس سے آسٹریہ میں رہتے چلے آ رہے تھے۔
1933-39 : میں آزادی، سفر اور محنت کرنے کی عادت کے ساتھ بڑا ہوا۔ مارچ 1938 میں ہماری ویگن سردیوں کیلئے ویانا کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی جب میری ساتویں سالگرہ سے فوری قبل جرمنی نے آسٹریہ پر قبضہ کر لیا۔ جرمنوں نے حکم دیا کہ ہم وہیں رہیں۔ میرے والدین نے ویگن کو لکڑی کے ایک گھر میں تبدیل کر دیا۔ لیکن میں اپنے گرد مستقل دیواروں کی عادی نہیں تھی۔ میرے والد اور میری سب سے بڑی بہن نے ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا اور میں نے گریڈ اسکول کا آغاز کیا۔
1940-44 : 1943 تک میرے خاندان کو جلاوطن کر کے برکیناؤ نازی کیمپ بھجوا دیا گیا۔ یہاں ھزاروں خانہ بدوش تھے۔ اب ہمیں خار دار تاروں کے اندر محدود کر دیا گیا۔ اگست 1944 تک محض 2000 خانہ بدوشوں کو زندہ رہنے دیا گیا۔ ہم میں سے 918 کو گاڑیوں کے ذریعے جبری مشقت کیلئے بوخن والڈ روانہ کر دیا گیا۔ وہاں جرمنوں نے فیصلہ کیا کہ ہم میں سے 200 افراد کام کرنے کے اہل نہیں ہیں اور یوں ہمیں برکیناؤ واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں بھی اُن میں سے ایک تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ میری عمر بہت کم ہے اور یوں میں کام نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن میرے بھائی اور چچا نے اصرار کیا کہ میری عمر 14 برس ہے اور قد چھوٹا ہے۔ میں وہاں رکنے میں کامیاب ہو گیا۔ باقی لوگوں کو گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی خاطر روانہ کر دیا گیا۔
کارل کو بعد میں فلوسن برگ حراستی کیمپ میں جلا وطن کر دیا۔ اُنہیں 24 اپریل 1945 کو امریکی فوجیوں نے روئیٹز جرمنی کے قریب رہا کرا لیا۔ جنگ کے بعد وہ واپس ویانا چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںرشتہ دار اور دوست اُنہیں ہنسی کہتے تھے۔ وہ ایک رومن کیتھولک خانہ بدوش والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ اس خاندان کی ویگن ایک ایسے قافلے کے ساتھ سفر کرتی تھی جو موسم سرما آسٹریا کے دارالحکومت وینا میں اور موسم گرما آسٹریا کے دیہی علاقوں میں گزارتا تھا۔ اسٹوجکا خاندان کا تعلق ایک لووارا روما نامی خانہ بدوش قبیلے سے تھا جو گھوڑے بیچ کر گزارا کرتا تھا۔
1933-39ء: میں آزادی، سفر اور مشقت کی عادت کے ساتھ پلا بڑھا۔ یہ مارچ 1938 کی بات ہے۔ میں اُس وقت 9 سال کا تھا۔ اُس موسم سرما میں ہماری ویگن ویانا کی ایک کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی جب جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔ جرمنوں نے ہمیں ایک جگہ ٹھہرنے کا حکم دیا۔ میرے والدین کو اپنی ویگن لکڑی کے گھر میں بدلنی پڑی اور میرے والد اور بڑی بہن نے ایک فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ میں نے اسکول جانا شروع کیا اور میرے خاندان کو پورا سال ایک ہی جگہ میں رہنے کا انتظام کرنا پڑا۔
1940-44ء: 1943ء میں میرے خاندان کو برکیناؤ میں خانہ بدوشوں کے نازی کیمپ میں منتقل کیا گیا۔ ایک دن میری ماں مجھے شفاخانہ لے گئيں۔ میرے خون میں زہر پھیلا ہوا تھا۔ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ قیدی "چمنی کے راستے" شفاخانہ چھوڑ سکتے ہیں۔ مگر اگلے دل میں واپس آیا اور جو میں نے خواب دیکھا تھا وہ ماں کو سنایا: "سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ایک عورت نے مجھے نرم دلی کے ساتھ گھیرے میں لے لیا اور مجھے ٹھیک کردیا۔" ماں نے پہلے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر لاشوں کی بھٹی کے دھوئیں کی طرف دیکھا۔ پھر شکرانے کی دعا کی۔ وہ شفاخانہ علاج کا مرکز نہیں تھا بلکہ موت خانہ تھا۔
ہینسی کو بعد میں جبری مشقت کیلئے بوخن والڈ اور پھر فلوسین برگ کے حراستی کیمپوں میں جلا وطن کردیا گیا۔ 24 اپریل، 1945ء کو اُنہیں روئٹز کے قریب آزاد کردیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ ویانا واپس لوٹ آئے۔
آئٹم دیکھیںاوسسی رومن کیتھولک خانہ بدوشوں کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اُس کا خاندان ایک فیملی ویگن میں محو سفر رہتا تھا۔ اُن کا قافلہ سردیاں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بسر کرتا تھا اور اُن کی گرمیاں آسٹریا کے دیہی علاقے میں گزرتیں۔ اسٹویکا خانہ بدوشوں کے ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو لووارا روما کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اپنی روزی ہر وقت سفر میں رہتے ہوئے گھوڑوں کی تجارت کرتے کماتے تھے۔ اوسسی کے آباواجداد 200 برس سے زائد عرصے سے آسٹریا میں رہتے آئے تھے۔
1933-39: اوسسی کی عمر صرف 2 برس تھی جب جرمنی نے مارچ 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کرلیا۔ جب جرمن داخل ہوئے تو اسٹویکا کی فیملی ویگن سردیاں گزارنے کیلئے ویانا کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی۔ اُنہوں نے خانہ بدوشوں کو حکم دیا کہ وہ وہیں ٹھہرے رہیں۔ اسٹویکا نے اپنی ویگن کو لکڑی کے ایک گھر میں تبدیل کر لیا اور یوں ایک ہی جگہ ٹھرے رہنے کی کوشش کرنے لگے۔
1940-44: خانہ بدوشوں کو ایک مختلف "نسل" کی حیثیت سے اپنا اندراج کرانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جب اوسی پانچ برس کا تھا تو جرمن اُس کے والد کو اُٹھا لے گئے۔ پھر اُس کی بہن کیتھی کو لے گئے اور بالآخر اوسی اور اُس کے باقی خاندان کو خانہ بدوشوں کیلئے برکینو میں موجود ایک نازی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں کھانے کو بہت ہی کم تھا۔ زیادہ تر شلجم ہی کھائے جاتے۔ چھوٹا اوسی بیمار ہو گیا اور وہ ٹائفس میں مبتلا ہو گیا۔ اُسے بیمار قیدیوں کی بیرک میں لے گئے۔ اِس بیرک کو قیدی "میت سوزی کی بھٹی یعنی کریمیٹوریا سے ملحق کمرہ" قرار دیتے تھے۔
اوسسی کو وہاں کوئی طبی امداد نہیں دی گئی۔ وہ ٹائفس اور ناقص خوراک کے باعث ہلاک ہو گیا۔ اُس کی عمر 7 برس تھی۔
آئٹم دیکھیںسیجا چھ بچوں میں سے پانچویں نمبر پر رومن کیتھولک خانہ بدوش والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ اسٹوجکا کے خاندان کی ویگن ایک قافلے کے ساتھ سفر کرتی تھی جو موسم سرما آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں اور موسم گرما آسٹریا کے دیہی علاقوں میں گزارتا تھا۔ اسٹوجکا کا تعلق ایک لووارا روما نامی خانہ بدوش قبیلے سے تھا جو گھوڑے بیچ کر گزارا کرتا تھا۔
1933-39ء: میں آزادی، سفر اور مشقت کے ماحول میں پلی بڑھی۔ ایک بار میرے والد نے ایک ٹوٹے ہوئے سائبان کے کچھ مواد سے میرے لئے ایک اسکرٹ بنایا۔ جب میں 5 سال کی تھی، موسم سرما میں ہماری ویگن ویانا کے ایک کیمپ گراؤنڈ میں کھڑی تھی ۔ اُس وقت جرمنی نے مارچ 1938ء میں آسٹریا پر قبضہ کر لیا تھا۔ جرمنوں نے ہمیں اسی جگہ ٹھہرنے کا حکم دیا۔ میرے والدین کو اپنی ویگن ایک لکڑی کے گھر میں بدلنا پڑی اور کھلی آگ پر کھانے پکانے کے بجائے ہمیں چولھے پر کھانا بنانا سیکھنا پڑا۔
1940-44ء: خانہ بدوشوں کو دیگر "نسل" کے اراکین کے طور پر رجسٹر کرانے پر مجبور کردیا گیا۔ ہمارے کمیپ گراؤنڈ کے گرد باڑ لگا دی گئی اور ہمیں پولیس کی زیر نگرانی رکھا گیا۔ میں 8 سال کی تھی جب جرمن میرے والد کو لے گئے؛ کچھ مہینوں کے بعد میری ماں نے ان کی راکھ ایک ڈبے میں وصول کی۔ پھر جرمن میری بہن کیتھی کو لے گئے۔ بالآخر انہوں نے ہم سب کو برکیناؤ میں خانہ بدوشوں کیلئے ایک نازی کیمپ میں جلا وطن کر دیا۔ ہم لاشوں کی بھٹی کے دھوئیں کے سائے میں رہے، ہم نے اپنی بیرکوں کے سامنے والے راستے کا نام "جہنم کی شاہراہ" رکھا تھا کیونکہ یہ راستہ گیس چیمبر کی طرف جاتا تھا۔
سیجا کو 1945ء میں برجن بیلسن کیمپ میں آزادی مل گئی۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں لووارا جپسی گانے تحریر کئے اور اُنہیں نشر کیا۔
آئٹم دیکھیںمیری کا تعلق لووارا روما نامی خانہ بدوش قیبلے سے تھا۔ یہ قبیلہ قافلوں میں سفر کرتا تھا اور گھوڑے بیچ کر گزارا کرتا تھا۔ یہ قافلہ موسم سرما آسٹریا کے دار الحکومت ویانا اور موسم گرما آسٹریا کے دیہی علاقوں میں گزارتا تھا۔ جب میری 18 سال کی تھیں تو اُنہوں نے اسی قبیلے کے کارل اسٹوجکا نامی شخص سے شادی کر لی۔ میری کا خاندان رومن کیتھولک تھا اور اُن کے آباء و اجداد 200 سال سے آسٹریا میں رہ رہے تھے۔
1933-39ء: 1936 تک میرے ہاں چھ بچے ہو چکے تھے۔ ہم ایک قافلے کے ساتھ رہتے تھے اور آزادی، سفر اور مشقت کی زندگی کے عادی تھے۔ یہ مارچ 1938 کی بات ہے۔ ہماری ویگن موسم سرما کیلئے ویانا میں کھڑی تھی جب جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔ جرمنوں نے ہمیں ایک جگہ ٹھہرنے کا حکم دیا اور ہم نے اپنے شہری حقوق کھو دئے۔ ہمیں اپنی ویگن کو ایک لکڑی کے گھر میں بدلنا پڑا اور مجھے کھلی آگ پر کھانے پکانے کے بجائے چولھے پر کھانا بنانا سیکھنا پڑا۔
1940-44ء: خانہ بدوشوں کو دیگر "نسل" کے اراکین کے طور پر رجسٹر کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہمارے کمیپ گراؤنڈ کے گرد باڑ لگا دی گئی اور ہمیں پولیس کی زیر نگرانی رکھا گیا۔ ایک سال بعد جرمن میرے شوہر کو لے گئے اور کچھ مہینوں بعد اُن کی راکھ دے گئے۔ غمگین ہو کر میں نے اپنے لمبے بال کاٹ دئے اور ایک پادری کی مدد سے میں نے اُن کی باقیات وقف شدہ زمین میں خفیہ طور پر دفنا دیں۔ بالآخر جرمنوں نے ہمیں برکیناؤ میں ایک نازی کیمپ میں جلا وطن کر دیا جو خانہ بدوشوں کیلئے تھا۔ اس خوفناک جگہ میں جتنا ہوسکا میں نے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کی مگر میرا سب سے چھوٹا بیٹا ٹائفس کا شکار ہو کر مر گیا۔
1944ء میں میری کو ریونزبروئک میں جلا وطن کیا گیا اور بالآخر اپریل 1945ء میں برجن بیلسن میں انہیں رہائی مل گئی۔ جنگ کے بعد وہ زندہ بچ جانے والے اپنے باقی پانچ بچوں سے جا ملیں۔
آئٹم دیکھیںتھیریسیا سیبل جو نازی ڈاکٹروں کی زیرنگرانی پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی خانہ بدوش ماں تھی، اور ریٹا پریگمور جو خانہ بدوش جڑواں بچوں میں سے ایک تھی، جڑواں بچوں پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں بتاتی ہیں
[تصویروں کے کریڈٹ:گیٹی کی تصاویر، نیو یارک سٹی؛ یاڈ واشیم،یروشلم؛ میکس۔پلینک انسٹی ٹیوٹ فار سائکئیٹری (ڈوئش فارچنگ سینسٹلٹ فیور سائکئیٹری)، ھسٹریشز آرکائو، بلڈر سیملنگ جی ڈی اے، میونخ؛ بنڈیسارکیو کوبلینز، جرمنی؛ ڈوکیومینٹیشن سارکیو ڈیس آسٹیریشن وائڈر سٹینڈیس، ویانا؛ کریم ہلڈ سنڈر: ڈائی لینڈیشیلانسٹلٹ اُکٹسپرنگے اُنڈایہرے ورسٹریکنگ اِن نیشنل سوزیالسٹیش وربریکین؛ ایچ ایچ ایس ٹی اے ڈبلیو اے بی ٹی۔ این آر۔ 12 / 32442 ؛ پرائویٹ چہلیکشن ایل۔ اورتھ بون۔]
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.