جرمن گشتی قاتل یونٹ (آئن سیٹزگروپن) دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن مقبوضہ مشرقی یورپ کے علاقوں میں فعال تھے۔ یہ نادر فوٹیج لئیپاجا، لیٹویا میں ایک قتل عام کے دوران گشتی قاتل یونٹ کو دکھا رہی ہے۔ ایک جرمن فوجی نے یہ تصویر ممانعت کے باوجود اتاری۔ جنگ سے پہلے لئیپاجا کی یہودی آبادی 7،000 باشندوں سے زیادہ تھی۔ جرمن گشتی قاتل یونٹوں نے اس قصبے کی تقریباً تمام یہودی آبادی کو ہلاک کر دیا۔ جب 1945 میں سوویت فوج نے اس شہر کو آزاد کرایا تو اس میں صرف 20 سے 30 یہودی باقی رہ گئے تھے۔
آئٹم دیکھیںجرمن فوج نے پولینڈ کے شہر کراکاؤ پر ستمبر سن 1939 میں قبضہ کیا۔ مارچ 1941 میں جرمنی نے کراکاؤ میں ایک یہودی بستی قائم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس فوٹیج میں پولش یہودیوں کو زبردستی کراکاؤ یہودی بستی میں بھیجا جا رہا ہے۔ اُن کیلئے ضروری ہے کہ وہ بازو پر مخصوص پٹی باندھیں تاکہ اُنہیں شہر کے دیگر افراد سے الگ کیا جا سکے۔ 1941 کے آخر تک 18،000 کے لگ بھگ یہودی کراکاؤ کی یہودی بستی میں قید تھے۔
آئٹم دیکھیںجرمن فوج نے پولینڈ کے شہر لوڈز پر ستمبر 1939 میں قبضہ کر لیا۔ فروری 1940 کی ابتداء سے لوڈز کے یہودیوں کو ایک مخصوص یہودی بستی میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا جسے 30 اپریل 1940 کو بند کردیا گیا۔ اس جرمن فوٹیج میں لوڈز کی یہودی بستی میں سردی کے دوران حالات کو واضح کیا گیا ہے۔ یہودی بستی میں سردیوں کے موسم نے پہلے سے موجود مشکلات میں اضافہ کردیا اور پہلے ہی سے قلیل مقدار میں موجود خوراک اور ایندھن کی مقدار اور بھی کم کر دی۔
آئٹم دیکھیںوارسا یہودی بستی کے مختلف حصوں کو ایک پل کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کر دیا گيا تھا تاکہ یہودی ایس سڑکوں کی طرف نہ جا سکیں جو یہودی بستی کا حصہ نہیں تھیں۔ یہودی بستیوں کو سیل کرنے سے پہلے کجھ ہی داخلی اور خارجی دروازوں پر چیکنگ کیلئے چوکیاں موجود تھیں۔ یہودی بستیوں کے ابتدائی مہینوں میں زندگی بظاہر نارمل دکھائی دیتی تھی لیکن جلد ہی خوراک اور مناسب ریہائشی سہولتوں کی کمی سے صورتِ حال انتہائی خراب ہو گئی۔
آئٹم دیکھیںآشوٹز کیمپ پر پہچنے کے بعد قیدیوں پر زور ڈالا گيا کہ وہ اپنی چیزوں کو حکام کے حوالے کردیں۔ رہنے والوں کی چیزیں پابندی کے ساتھ پیک ہوتی تھیں اور انھیں شہریوں یا جرمن فیکٹری کے استعمال کیلئے تقسیم کی غرض سے بھیج دیا جاتا تھا۔ آشوٹز کیمپ کو جنوری 1945 میں آزاد کرایا گیا۔ اس سوویت فوجی فوٹیج میں شہریوں اور سوویت فوجیوں کو ان لوگوں کی چیزوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو آشوٹز کے حراستی کیمپ میں ہلاک کرنے کی غرض سے جلاوطن کئے گئے تھے۔
آئٹم دیکھیںجرمنی میں شمال مغربی میونخ میں ڈاخو حراستی کیمپ پہلا باقاعدہ حراستی کیمپ تھا جس کو نازیوں نے 1933 میں قائم کیا تھا۔ تقریبا بارہ سال کے بعد 29 اپریل 1945 کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی فوجوں نے اس کو آزاد کرایا۔ آزادی کے وقت اس کیمپ میں تقریباً 30،000 بھوکے اور افلاس زدہ قیدی موجود تھے۔ یہاں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ساتویں فوج کے سپاہی کیمپ کے حالات بیان کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جرمن شہریوں سے بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس کیمپ میں آ کر نازیوں کی بربریت کو دیکھیں۔
آئٹم دیکھیںایوا جسٹن تھرڈ ریخ یعنی تیسری مملکت کے روما (خانہ بدوشوں) کے ماہر ڈاکٹر رابرٹ ریٹر کی اسسٹنٹ تھیں۔ اُنہوں نے روما کی نسلی خصوصیات پر اپنے تحقیقی مقالے کے ایک حصے کے طور پر ان روما بچوں کا مطالعہ کیا۔ یہ بچے ملفنجن جرمنی میں کیتھولک بچوں کے مرکز سینٹ جوزفز پفلیج میں مقیم رہے۔ جسٹن نے یہ فلم بننے کے کچھ ہی عرصے بعد اپنا تحقیقی مطالعہ مکمل کر لیا۔ بعد اذاں ان بچوں کو آش وٹز برکیناؤ میں جلا وطن کر دیا گیا جہاں ان میں سے اکثر کو ہلاک کر دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںھاڈامار نفسیاتی ہسپتال رحیمانہ قتل کے مرکز کے طور پرجنوری سے اگست 1941 تک استعمال ہوتا رہا تھا۔ وہاں نازی ڈاکٹروں نے تقریبا 10،000 جرمن مریضوں کو گیس سے مار ڈالا تھا۔ اگرچہ باقاعدہ گیس سے ہلاک کرنے کے اقدامات ستمبر 1941 میں ختم ہوگئے تھے، لیکن مریضوں کی ہلاکت جنگ کے آخر تک جاری رہی۔ اس فوٹیج میں امریکی فوجی ھاڈامار کے قبرستان میں قبروں سے لاشوں کو نکالنے کی نگرانی کررہے ہیں اور ڈاکٹر ایڈولف وھلمان اور کارل وائلگ سے پوچھ گچھ کررہے ہیں جو ہلاکتوں کے ان اقدامات میں شریک تھے۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.