چیم کے خاندان کا تعلق ایک چھوٹے قصبے سے تھا جہاں اُّن کے والد ایک ٹیکسٹائل اسٹور کے مالک تھے۔ جب بروڈزیو میں سام دشمنی کا منظم قتل عام پھیل گیا تو اینجل خاندان صنعتی شہر لوڈز چلا آیا۔ اُس وقت چیم کی عمر 5 برس تھی۔ لوڈز میں وہ ایک یہودی اسکول میں داخل ہوئے جہاں غیر مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مڈل اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد چیم نے اپنے چچا کے ٹکسٹائل کارخانے میں کام کرنا شروع کر دیا۔
1933-39: لوڈز میں ہمارے قرب و جوار میں زیادہ تر یہودی رہتے تھے۔ لہذا میرے بیشتر دوست بھی یہودی تھے۔ میں نے ایک نوجوان کی حیثیت سے اپنی لازمی فوجی سروس شروع کی۔ یکم ستمبر 1939 کو جب میری تعیناتی ختم ہونے میں صرف دو ہفتے باقی تھے تو جرمنوں نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ چند ہفتوں کے بعد مجھے جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ جرمن قابضوں میں سے ایک جان گیا کہ میں یہودی ہوں لیکن اُس نے مجھے گولی نہیں ماری۔ مجھے جبری مشقت کیلئے جرمنی لے جایا گیا۔
1940-44: مارچ 1940 میں تمام یہودی جنگی قیدیوں کو پولنڈ واپس بھیج دیا گیا۔ مجھے 1942 کے موسم گرما میں سوبی بور قتل گاہ بھیج دیا گیا۔ اکتوبر 1943 میں قیدیوں کے ایک چھوٹے گروپ نے بغاوت کردی۔ میں نے اپنے نگران کو چھرا گھونپ کر مار ڈالا۔ ہر وار پر میں چلاتا کہ "یہ میرے والد کیلئے ہے، یہ میری والدہ کیلئے ہے اور یہ اُن تمام یہودیوں کیلئے ہے جنہیں تم نے قتل کیا ہے"۔ میرے ہاتھ سے چاقو پھسل گیا اور مجھے زخم آیا جس سے میرے سارے جسم پر خون پھیل گیا۔ ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ بہت سے قیدی بڑے دروازے سے باہر بھاگ گئے۔ اِن میں سے کچھ کا پیر بارودی سرنگ پر پڑ گیا۔ کچھ نے یہ دیکھ کر ہار مان لی اور بھاگنے کا ارادہ بالکل ترک کر دیا۔ میں نے اپنی گرل فرینڈ کا ہاتھ تھاما اور ہم جنگل کی طرف بھاگ گئے۔
چیم اپنی گرل فرینڈ سلما کے ساتھ پولینڈ کے جنگل میں چھپے رہے۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے شادی کر لی اور یورپ اور اسرائیل میں رہنے لگے۔ اینجلز جوڑا 1957 میں امریکہ آ کر آباد ہو گیا۔
آئٹم دیکھیںولی نے ایک یہودی خاندان میں جنم لیا اور 20 برس کی عمر میں پولینڈ چھوڑ کر فلسطین جا بسے۔ وہ وہاں برطانوی اختیار کو ختم کرنے کیلئے کارکنوں کی تنظیم میں فعال ہو گئے۔ اُن کی سرگرمیوں کے نتیجے میں یکم مئی 1931 میں گرفتار کر لیا گيا۔ دو برس جیل کی سزا کاٹنے کے بعد ولی کو فلسطین سے نکال دیا گیا۔
1933-39: ولی 1933 میں فلسطین چھوڑ کر آسٹریا کیلئے روانہ ہو گئے جہں اُنہوں نے کارکنوں کی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ آسٹریا میں اقتصادی گراوٹ نے اُن کی تحریک میں زور پیدا کر دیا اور ولی اور اُن کے دوستوں پر پولیس کی کڑی نظر رہنے لگی۔ جرمنوں نے جب 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کیا تو جرمن خفیہ پولیس گسٹاپو نے اُن کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ ولی اپنے دوستوں کی مدد سے فرار ہو کر فرانس پہنچ گئے اور پھر ملازمت کی تلاش میں پیرس جا پہنچے۔
1940-44: 1940 کے وسط میں ولی کو پیرس میں فر کے لباس تیار کرنے والے کے پاس ملازمت مل گئی جسے جرمن فوج کیلئے لباس تیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ولی نے وہاں کارکنوں کو منظم کیا اور اُنہیں تخریب کاری کی تربیت دی۔ جرمنوں نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا جس کے جواب میں ولی نے مزید لوگوں کو بھرتی کیا۔ مئی 1943 میں ولی مسلح مزاحمتی گروپ میں شامل ہو گئے۔ اِس گروپ کو فرینک ٹائریس ایٹ پارٹیسنز کہتے تھے۔ 27 اکتوبر 1943 کو اُنہیں اُس وقت گرفتار کر لیا گیا جب اُنہوں نے ایک جرمن فوجی قافلے پر حملہ کیا۔ اُنہیں اذیت دی گئی لیکن اُنہوں نے کبھی بھی اپنے ساتھی جنگجوؤں کے نام نہیں بتائے۔ اُنہیں فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی۔
ولی کو 21 فروری 1944 کو بدھ کے روز ہلاک کر دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںایوز کی عمر سات برس تھی جب اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور اُن کی پرورش اُن کے نانا کے گھر ہوئی جو پیرس میں چیف اشکینازی ربی تھے۔ ایوز ایک کامیاب بزنس مین بننے کے ساتھ ساتھ ڈپارٹمنٹ اسٹور کے ایک سلسلے کے مالک ہو گئے۔ وہ ایک ماہر کوہ پیما تھے اور ٹینس کھیلنا اور کاروں اور موٹرسائیکلوں کی دوڑ کے رسیا تھے۔ جب ایوز نوجوان تھے تو اُنہوں نے فرانس کی ایلپائن کور میں فوجی خدمات انجام دیں تھیں۔
1933-39: 1934 میں ایوز نے پولیٹ وائل سے شادی کی۔ اُن کی دو بچیاں ہوئیں۔ 1935 میں نادائن اور 1939 میں فرانسیلائن پیدا ہوئیں۔ جب 1938 میں چیکوسلواکیہ کے بحران پر لڑائی کا خطرہ پیدا ہوا تو اُنہیں فرانسیسی فوج کی طرف سے طلب کر لیا گیا اور اُنہوں نے لیفٹننٹ کی حیثیت سے پانچ ماہ گزارے۔ ایوز کو اُس وقت دوبارہ فوج کیلئے طلب کر لیا گیا جب فرانس نے ستمبر 1939 میں جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
1940-44: ایوز کو جرمنی کے فرانس پر حملے کے دوران گرفتار کرلیا گيا۔ وہ فرار ہو گئے مگر لڑنے کیلئے فرانس میں ہی موجود رہے۔ سینٹ ایٹئینے میں اپنے اسٹور کی انونٹری کو استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس موقع کا فائدہ اُٹھایا اور غیر مقبوضہ وکی فرانس میں کوارٹر ماسٹر کور کو منظم کیا جو فرانس کی آزادی کیلئے کام کرنے والی مزاحمتی تحریک کو خوراک، کمبل، خیمے اور کپڑے فراہم کرتی تھی۔ اُنہوں نے یہودی بچوں کو کانونٹ اور زرعی فارموں میں چھپانے میں مدد دی ۔ اُنہوں نے کنیڈین اور امریکی چھاتہ بردار فوجیوں کو بھی چھپنے میں مدد دی۔ ایوز نے سیوائے میں مزاحمتی تحریک کی قیادت کی۔ 1944 میں اتحادیوں کے فرانس پہنچنے پر جرمنوں نے ایوز کو پکڑ لیا۔
ایوز کو شدید اذیت دی گئی اور اُنہیں 24 جون 1944 کو ایٹرسی میں ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت اُن کی عمر 35 برس تھی۔ اُن کی موت کے بعد اُنہیں فرانس کے وار کراس، ملٹری میڈل اور لیجن آف آنر جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔
آئٹم دیکھیںایستھر پولنڈ کے شہر چیلم میں ایک متوسط یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ دسمبر 1942 میں وہ ایک مزدور کیمپ سے مقبوضہ پولنڈ کی سوبی بور قتل گاہ میں جلاوطن کردی گئیں۔ سوبی بور کیمپ میں پہنچنے کے بعد ایستھر کو شیڈ چھانٹنے کے کام کے لئے منتخب کیا گيا۔ وہ اُن لوگوں کے کپڑے اور ان کے سامان کو چھانٹتی تھیں جو اس کیمپ میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ 1943 کے گرمیوں اور خزاں کے موسم کے دوران ایستھر سوبی بور کیمپ میں موجود قیدیوں کی ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گئیں جس نے بغاوت اور فرار کا منصوبہ بنایا۔ اِس گروپ کے لیڈروں میں لیون فیلڈ ہینڈلر اور اسکندر (ساشا) پیچرسکی شامل تھے۔ وہ بغاوت 14 اکتوبر 1943 کو واقع ہوئی۔ جرمن اور یوکرینین محافظوں نے ان قیدیوں پر فائر کھول دیا جو بڑے گیٹ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ لہذا انہوں نے کیمپ کے ارد گرد بچھی بارودی سرنگوں کے راستے سے نکلنے کی کوشش کی۔ تقریبا 300 لوگ بھاگ گئے۔ ان میں سے 100 سے زیادہ لوگ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اُنہیں گولی مار دی گئی۔ ایستھر ان لوگوں میں شامل تھیں جو بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
آئٹم دیکھیں1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیں1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیں1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیںولاڈکا بند (یہودی سوشلسٹ پارٹی) کے نوجوانوں کی زوکنفٹ تحریک سے وابستہ تھیں۔ وہ یہودی لڑاکا تنظیم (زیڈ او بی) کی ایک رکن کی حیثیت سے خفیہ طور پر وارسا یہودی بستی میں سرگرم تھیں۔ دسمبر 1942 میں اُنہیں وارسا کے پولینڈ کی طرف کے علاقے آرین میں اسمگل کیا گيا تاکہ وہ ہتھیار حاصل کرنے اور بچوں اور بڑوں کے چھپنے کے لئے خفیہ مکان تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ وہ زیر زمین یہودی تنظیموں اور کیمپوں، جنگلوں اور دوسری یہودی بستیوں میں موجود یہودیوں کے لئے ایک سرگرم پیغام رساں بن گئیں۔
آئٹم دیکھیںبین چار بچوں میں ایک تھا جو ایک مذہبی یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ وارسا پر جرمن قبضے کے بعد بین نے وہاں سے فرار کے بعد سوویت مقبوضہ مشرقی پولنڈ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم جلد ہی اُنہوں نے اپنے خاندان کی طرف پھر وارسا واپسی کا فیصلہ کیا۔ اُن کا خاندان اُس وقت وارسا کی یہودی بستی میں رہتا تھا۔ بین کو یہودی بستی کے باہر کام پر لگا دیا گيا اور اس نے لوگوں کو یہودی بستی سے باہر اسمگل کرنے میں مدد کی-- جس میں ایک یہودی مزاحمت تنظیم کی رکن ولادکا (فجیلے) پیلٹل بھی شامل تھی جو بعد میں اس کی بیوی بنی۔ بعد میں وہ یہودی بستی سے باہر رو پوش ہو گيا اور اپنے آپ کو پولینڈ کا ایک غیریہودی باشندہ ظاہر کرنے لگا۔ 1943 میں رونما ہونے والی وارسا یہودی بستی کی بغاومت میں بین نے ایک خفیہ تنظیم کے کارکنوں کے ساتھ کام کیا تاکہ وہ بستی کے لڑنے والوں کو بچا سکے۔ وہ اُنہیں گندے نالوں کے ذریعہ باہر لاتے اور وارسا کے "آرین" حصہ میں ان کو چھپاتے۔ بغاوت کے بعد بین اپنے آپ کو غیریہودی ظاہر کرتا ہوا وارسا سے بچ کر نکل گيا۔ آزادی کے بعد وہ دوبارہ اپنے والد، والدہ اور اپنی چھوٹی بہن سے جا ملا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.