منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
گرڈا اپنے یہودی والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ دریائے اوڈر پر واقع ایک بڑے صنعتی شہر بریسلو میں رہتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے بریسلو کی یہودی کمیونٹی جرمنی بھر میں تیسری بڑی یہودی کمیونٹی تھی۔ گرڈا کے والد ھارڈویئر اور تعمیراتی سامان کی ایک بڑی کمپنی میں سیلزمین کے طور پر کام کرتے تھے۔ گرڈا نے 9 برس کی عمر تک ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد اُسے کیتھولک گرلز اسکول میں بھیجا گیا۔
1933-39: میں منظم قتل عام کے بعد شہر کی صورت حال دیکھنے گئی۔ یہودیوں کی دوکانوں کی کھڑکیاں توڑ دی گئی تھیں۔ نذرآتش کیا گیا ایک سناگاگ ابھی تک سلگ رہا تھا۔ میں نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ جرمنی چھوڑ کر نکل چلیں۔ کئی ماہ بعد اُنہوں نے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم نے کیوبا کے ویزے حاصل کئے اور 13 مئی 1939 کو سینٹ لوئس نامی جہاز پر سوار ہو کر ہیمبرگ سے روانہ ہو گئے۔ 27 مئی کو کیوبا پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے ویزے درست نہیں تھے۔ یوں ہمیں داخلے کی اجازت نہ ملی اور ہمیں یورپ واپس لوٹنا پڑا۔
1940-44: کسان عورتوں کے بھیس میں میری والدہ اور میں گھاس سے لدی ایک ویگن کو لئے جرمنی کی سرحدی چوکی پار کر کے فرانس سوٹزرلینڈ کی سرحد پر ایک فارم تک پہنچ گئے۔ ہم پیدل چلتے ہوئے ایک چھوٹی گھاٹی میں اُتر گئے اور ایک ندی پار کر کے ایک خاردار باڑ کے نیچے سے سرکتے ہوئے دوسری جانب پہنچ گئے۔ یہ باڑ سرکاری سرحد تھی۔ لیکن ہمیں سوٹزرلیند کے سرحدی محافظوں نے پکڑ لیا اور رات بھر حراست میں رکھا۔ اگلے روز ہمیں دوسرے پناہ گزینوں کے ساتھ ایک ٹرین میں سوار کرا دیا گیا۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔
گرڈا نے سوٹزرلینڈ کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں انٹرن کے طور پر دو برس گزارے اور پھر جنگ کے اختتام تک برن میں بلاؤز تیار کرنے والے ایک کارخانے میں کام کیا۔ 1949 میں وہ نقل مکانی کر کے امریکہ چلی آئیں۔
1938 میں مارٹن کے والد کو کرسٹل ناخٹ (ٹوٹے شیشوں کی رات) کے دوران قید کر دیا گیا۔ خاندان کے مسیحی شیفر کی مداخلت پر مارٹن کے والد کو تین دن کے بعد رہا کر دیا گیا۔ خاندان نے ترک وطن کر کے فلسطین چلے جانے کیلئے ویزا حاصل کیا اور وہ 1939 میں جرمنی سے روانہ ہو گئے۔ مارٹن نے "غیر قانونی" تارکین وطن کی مدد کی جو برطانوی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے فلسطین میں داخل ہو گئے۔ برطانیہ نے اُنہیں 1947 میں قید کر دیا اور اُن کیلئے فلسطین میں رہنے پر پابندی لگا دی۔ پھر وہ امریکہ چلے آئے۔
گرڈا اور اُن کے والدین نے مئی 1939 میں "سینٹ لوئس" جہاز سے کیوبا کا سفر کرنے کے لئے ویزا حاصل کیا۔ جب جہاز ہوانا کی بندرگاہ پر پہنچا تو اکثر پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت نہیں ملی اور جہاز کو یورپ واپس لوٹنا پڑا۔ گرڈا اور اُن کے والدین بیلجیم میں اتر گئے۔ مئی 1940 میں جرمنی نے بیلجیم پر حملہ کر دیا۔ گرڈا اور اُن کی والدہ سوئزرلنڈ بھاگ گئیں۔ جنگ کے بعد اُنہیں بتایا گيا کہ گرڈا کے والد جلاوطنی کے دوران انتقال کرگئے۔
ستمبر 1939 میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو نوربرٹ 3 سال کے تھے۔ وہ اور اُن کی والدہ وارسا میں تھیں، اُن کے والد کو پولینڈ کی فوج میں شامل کرلیا گيا اور بعد میں وہ ویلنا پہنچ گئے۔ نوربرٹ اور اُن کی والدہ اُن سے ملنے کیلئے روانہ ہوئیں اور چند ماہ کے بعد یہ خاندان اکٹھا ہو گیا۔ ویلنا میں ایک سال گذارنے کے بعد نوربرٹ کے والد ڈچ ویسٹ انڈیز میں کراکاؤ اور جاپان سے گزرنے کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نوربرٹ اور اُن کے والدین جنوری 1941 میں ویلنا سے روانہ ہوئے اور فروری میں وہ لوگ کوبے، جاپان پہنچ گئے۔ وہ جاپان میں اگلے آٹھ ماہ تک رکے رہے اور اُس کے بعد جاپانی حکام نے اُنہیں جاپانی مقبوضہ چین کے شہر شنگھائی چلے جانے کو کہا۔ نوربرٹ اور اُن کے والدین نے جنگ کے باقی سال شنگھائی میں گذارے۔ جون 1947 میں جنگ کے بعد شنگھائی میں متعین یہودی امریکی فوجیوں کی مدد سے یہ خاندان امریکہ چلا آیا۔
جب جنگ سے پہلے یہود دشمنی میں شدت آئی ھیسی کا خاندان جرمنی سے پیرس فرانس کی طرف فرار ہو گیا۔ فرانس بھی جون 1940 میں جرمن فوج کے کنٹرول میں آ گیا۔ ھیسی کے خاندان کو جنوبی فرانس کے آزاد علاقے میں اسمگل کر دیا گیا۔ 1941 میں خاندان کو امریکی ویزا مل گیا لیکن وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے روانہ نہ ہو سکے اور نہ ہی ویزے کی مدت میں اضافہ کرا سکے۔ 1942 میں خاندان کو کیوبا میں داخلے کے ویزے مل گئے جہاں وہ جا بسے اور پھر 1949 میں امریکہ نقل مکانی کر گئے۔
لیسا ایک مذہبی یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے تین بچوں میں سے ایک تھیں۔ 1939 میں اپنے وطن پر جرمن قبضہ ہونے کے بعد لیسا اور اُن کا خاندان پہلے اگستو اور پھر سلونم (سوویت مقبوضہ مشرقی پولنڈ) منتقل ہوگيا۔ سوویت یونین پر حملے کے دوران جرمنی فوجوں نے جون 1941 میں سلونم پر قبضہ کر لیا۔ سلونم میں جرمنوں نے ایک یہودی بستی قائم کی جو 1941 سے 1942 تک موجود رہی۔ لیسا بالآخر سلونم سے فرار ہو کر سب سے پہلے گروڈنو پہنچیں اور پھر وہاں سے ویلنا چلی آئیں جہاں وہ مزاحمتی تحریک میں شامل ہوگئیں۔ وہ ایک حامی جماعت میں شامل ہوئیں جو ناروک جنگل میں قائم اڈوں سے جرمنوں کے خلاف لڑرہی تھی۔ سوویت فوجوں نے اس علاقے کو 1944 میں آزاد کرا لیا۔ مشرقی یورپ سے ہالوکاسٹ میں بچ جانے والے 2 لاکھ 50 ھزار یہودیوں کی بریہا ("اُڑان"، "بچاؤ") تحریک کی ایک رکن کی حیثیت سے لیسا اور اُن کے شوہر نے یورپ چھوڑنے کی کوشش کی۔ جب وہ فلسطین میں داخل نہ ہوسکے تو اُنہوں نے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔
شارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
لیھ پولینڈ کے شہر وارسا کے مضافاتی علاقے پراگ میں پلی بڑھیں۔ وہ نوجوانوں کی ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ تحریک میں سرگرم تھیں۔ جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ یہودیوں کو وارسا گھیٹو یعنی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جسے جرمنوں نے نومبر 1940 میں بند کردیا تھا۔ اِس یہودی بستی میں لیھ ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ گروپ کے اراکین کے ساتھ رہیں۔ ستمبر 1941 میں وہ اور نوجوانوں کی تحریک کے دیگر ارکان بستی سے فرار ہو کر زیسٹوکووا۔ پولینڈ کے قریب واقع مقام زرکی میں ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ کے فارم پر پہنچ گئے۔ مئی 1942 میں لیھ زیر زمین تحریک کیلئے پیغام رساں بن گئیں اور اِس مقصد کے لئے وہ پولینڈ کے جعلی سفری کاغذات استعمال کرتے ہوئے کراکاؤ یہودی بستی اور قریبی پلاس زاؤ کیمپ کے درمیان سفر کرتی رہیں۔ جب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تو وہ تارناؤ بھاگ گئیں لیکن پھر جلد ہی کراکاؤ واپس لوٹ آئیں۔ لیھ نے اپنے آپ کو زیسٹوکووا اور وارسا میں پولینڈ کی ایک غیر یہودی شہری ظاہر کیا اور وہ یہودی قومی کمیٹی اور یہودی جنگی تنظیم (ZOB) کے لئے پیغام رساں کے طور پر کام کرتی رہیں۔ 1944 میں پولش وارسا بغاوت کے دوران اُنہوں نے آرمیا لوڈووا (پیپلز آرمی) میں ایک یہودی یونٹ کے ساتھ لڑائی کی۔ لیھ کو سوویت فوجوں نے آزاد کرایا۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے پولنڈ سے لوگوں کو امیگریٹ کرنے میں مدد دی اور پھر وہ اسرائیل چلی گئیں۔ بعد میں وہ امریکہ آ کر آباد ہو گئیں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.