جب جنگ سے پہلے یہود دشمنی میں شدت آئی ھیسی کا خاندان جرمنی سے پیرس فرانس کی طرف فرار ہو گیا۔ فرانس بھی جون 1940 میں جرمن فوج کے کنٹرول میں آ گیا۔ ھیسی کے خاندان کو جنوبی فرانس کے آزاد علاقے میں اسمگل کر دیا گیا۔ 1941 میں خاندان کو امریکی ویزا مل گیا لیکن وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے روانہ نہ ہو سکے اور نہ ہی ویزے کی مدت میں اضافہ کرا سکے۔ 1942 میں خاندان کو کیوبا میں داخلے کے ویزے مل گئے جہاں وہ جا بسے اور پھر 1949 میں امریکہ نقل مکانی کر گئے۔
جب آپ کو امریکہ کیلئے نقل مکانی کا ویزہ ملتا ہے جس کا حصول دشوار ہے کیونکہ آپ کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ اپنی کفالت کر سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ جا کر ویلفئر فنڈ پر ہوتے تو اِس ملک میں بوجھ تو نہیں بن سکتے تھے۔ پھر آپ کی صحت بھی ٹھیک ہونی چاہئیے اور اسی طرح کی کئی دوسری شرائط بھی ضروری ہیں۔ ان تمام اقدامات کے بعد آپ کو یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کے پاس صرف 90 دن ہیں جن کے دوران آپ کو امریکی سر زمین تک پہنچنا ہوتا ہے اور اُس وقت میرے والد کو محسوس ہوا کہ وہ کسی بھی طور اپنے خاندان کو اِس مدت کے دوران امریکہ نہیں لا سکتے۔ ویزے کی مدت ختم ہونے سے 30 روز پہلے اُنہوں نے ویزے کی توسیع کیلئے درخواست دی۔ اُس وقت بحر اوقیانوس کے پار جہاز نہیں چلتے تھے۔ یہ 1941 کا زمانہ تھا جب سمندر میں گشت ہوتا تھا۔ آبدوزیں تھیں۔ خیر ہم نے واشنگٹن سے ویزے کی توسیع کی درخواست کا انتظار کیا اور بالآخر ۔۔۔ درخواست کا جواب مل گیا جو نفی میں تھا۔ اُنہوں نے ویزے کی مدت میں اضافے سے انکار کر دیا۔ لہذا ۔۔۔ میرا خیال ہے ۔۔۔ یہ تو ہم کر سکتے ہیں کہ آج میں جو یہاں موجود ہوں تو یہ انکل سام کا احسان نہیں ہے۔ میرے والد نے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ فرانس میں لاطینی امریکہ کے کئی قونصل خانوں میں گئے اور بالآخر کیوبا کے قونصل خانے نے اُن کی بات سنی۔ کچھ رقم بھی لی اور پھر کیوبا کیلئے ویزے جاری کر دئے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.