روزا کا خاندان 1934 میں وارسا منتقل ہو گیا۔ اُس نے 1939 میں ابھی کالج شروع کیا ہی تھا کہ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جرمنوں نے 1940 مین وارسا گھیٹو کو سیل کر دیا جہاں اُس کے والدین کو پکڑ دھکڑ کے دوران گولی مار دی گئی تھی۔ روزا وہاں سے فرار ہو کر چھپ گئی۔ اپنی چھپنے کی جگہ سے اُس نے 1943 کی بغاوت کے دوران گھیٹو کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُس کے پاس جعلی کاغذات تھے جن پر لکھا تھا کہ وہ پولش کیتھولک (ماریہ کوویلچک) ہے اور اسے جون 1943 میں مویشیوں کی ایک گاڑی میں جرمنی جلاوطن کر دیا گیا۔ اُس نے 1945 میں آزادی تک ایک کھیت میں کام کیا۔
آئٹم دیکھیںولاڈکا بنڈ (یہودی سوشلسٹ پارٹی) کی زوکنفٹ یوتھ موومنٹ سے وابستہ تھیں۔ وہ وارسا گھیٹو کی خفیہ یہودی لڑاکا تنظیم (زیڈ او بی) کی رکن کی حیثیت سے فعال تھیں۔ دسمبر 1942 میں اُنہیں وارسا کے پولش حصے آرین سے باہر اسمگل کیا گیا تاکہ وہ ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں اور بچوں اور بڑوں کیلئے چھپنے کی خفیہ جگہیں تلاش کر سکیں۔ وہ خفیہ یہودی تنظیم، کیمپ کے یہودیوں، جنگلوں اور دیگر گھیٹو کیلئے فعال کورئر بن گئیں۔
آئٹم دیکھیںلیاہ پولینڈ کے شہر وارسا کے مضافات میں واقع مقام پراگ میں پلی بڑھیں۔ وہ نوجوانوں کی تنظیم ھا۔شومر ھا۔ٹسائر زوئنسٹ میں فعال تھیں۔ جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ یہودیوں کو وارسا گھیٹو میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جسے جرمنوں نے نومبر 1940 میں سیل کر دیا۔ گھیٹو میں لیاہ ھا۔شومر ھاٹسائر کے ارکان کے ایک گروپ کے ساتھ رہیں۔ گھیٹو میں لیاہ ھا۔شومر ھا۔ٹسائر کے ارکان کے ایک گروپ کے ساتھ رہیں۔ ستمبر 1941 میں وہ اور نوجوانوں کا گروپ گھیٹو سے فرار ہو کر پولینڈ میں زیسٹوکووا کے قریب زرکی میں واقع فارم ھاشومرھا ٹسائر پہنچ گئے۔ مئی 1942 میں لیاہ خفیہ تنظیم کی کورئر بن گئیں۔ اس کیلئے اُنہوں نے جعلی پولش کاغذات استعمال کئے اور کراکاؤ گھیٹو اور قریبی واقع پلاسزاؤ کیمپ کے درمیان سفر کرتی رہیں۔ جب حالات زیادہ خراب ہو گئے، وہ فرار ہو کر ٹارناؤ چلی گئیں۔ لیکن اُنہوں نے جلد ہی کراکاؤ واپس لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیاہ نے زیسٹوکووا اور وارسا میں خود کو غیر یہودی پولش فرد ظاہر کیا اور جیوئش نیشنل کمیٹی اور جیوئش فائٹنگ آرگنائزیشن (زی او بی) کیلئے کورئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔اُنہوں نے 1944 میں وارسا پولش بغاوت کے دوران آرمیا لوڈووا (پیپلز آرمی) کے ایک یونٹ کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔ لیاہ کو سوویت فوجوں نے آزاد کرایا۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے لوگوں کو پولینڈ سے نقل مکانی کرنے میں مدد فراہم کی۔ بعد میں وہ اسرائیل چلی آئیں اور بالآخر امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںلیھ پولینڈ کے شہر وارسا کے مضافاتی علاقے پراگ میں پلی بڑھیں۔ وہ نوجوانوں کی ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ تحریک میں سرگرم تھیں۔ جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ یہودیوں کو وارسا گھیٹو یعنی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جسے جرمنوں نے نومبر 1940 میں بند کردیا تھا۔ اِس یہودی بستی میں لیھ ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ گروپ کے اراکین کے ساتھ رہیں۔ ستمبر 1941 میں وہ اور نوجوانوں کی تحریک کے دیگر ارکان بستی سے فرار ہو کر زیسٹوکووا۔ پولینڈ کے قریب واقع مقام زرکی میں ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ کے فارم پر پہنچ گئے۔ مئی 1942 میں لیھ زیر زمین تحریک کیلئے پیغام رساں بن گئیں اور اِس مقصد کے لئے وہ پولینڈ کے جعلی سفری کاغذات استعمال کرتے ہوئے کراکاؤ یہودی بستی اور قریبی پلاس زاؤ کیمپ کے درمیان سفر کرتی رہیں۔ جب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تو وہ تارناؤ بھاگ گئیں لیکن پھر جلد ہی کراکاؤ واپس لوٹ آئیں۔ لیھ نے اپنے آپ کو زیسٹوکووا اور وارسا میں پولینڈ کی ایک غیر یہودی شہری ظاہر کیا اور وہ یہودی قومی کمیٹی اور یہودی جنگی تنظیم (ZOB) کے لئے پیغام رساں کے طور پر کام کرتی رہیں۔ 1944 میں پولش وارسا بغاوت کے دوران اُنہوں نے آرمیا لوڈووا (پیپلز آرمی) میں ایک یہودی یونٹ کے ساتھ لڑائی کی۔ لیھ کو سوویت فوجوں نے آزاد کرایا۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے پولنڈ سے لوگوں کو امیگریٹ کرنے میں مدد دی اور پھر وہ اسرائیل چلی گئیں۔ بعد میں وہ امریکہ آ کر آباد ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںدوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اس کی ماں اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا۔ وہ ہلاک کردئے گئے۔ ابراھیم کو ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ لیکن وہ بچ کر اپنے والد کے پاس یہودی بستی میں چلا آیا۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانک بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد کا انتقال ہوگيا۔ بعد میں ابراھیم کو اسکارزسکو، بوخن والڈ، بیسنجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جب جرمنوں نے کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںولاڈکا بند (یہودی سوشلسٹ پارٹی) کے نوجوانوں کی زوکنفٹ تحریک سے وابستہ تھیں۔ وہ یہودی لڑاکا تنظیم (زیڈ او بی) کی ایک رکن کی حیثیت سے خفیہ طور پر وارسا یہودی بستی میں سرگرم تھیں۔ دسمبر 1942 میں اُنہیں وارسا کے پولینڈ کی طرف کے علاقے آرین میں اسمگل کیا گيا تاکہ وہ ہتھیار حاصل کرنے اور بچوں اور بڑوں کے چھپنے کے لئے خفیہ مکان تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ وہ زیر زمین یہودی تنظیموں اور کیمپوں، جنگلوں اور دوسری یہودی بستیوں میں موجود یہودیوں کے لئے ایک سرگرم پیغام رساں بن گئیں۔
آئٹم دیکھیںویلویل کثیر یہودی آبادی کے قصبے کیلوسزن میں یہودی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سے ایک تھے۔ یہ قصبہ وارسا سے 35 میل مشرق میں تھا۔ اُن کے والدین مذہبی تھے اور وہ گھر پر عبرانی زبان بولتے تھے۔ ویلویل کے والد ایک بڑے زمیندار کیلئے بُک کیپر کے طور پر کام کرتے تھے۔ ویلویل کے والد کے انتقال کے بعد اُن کی والدہ کیلوسزن میں اخباروں کا ایک کھوکھا چلانے لگیں۔ ویلویل نے اُس وقت شادی کر لی جب وہ 20 کی دہائی میں تھے۔ وہ اپنی بیوی ھینیا کے ساتھ وارسا چلے آئے۔
1933-39 : جب تین ماہ قبل جنگ چھڑ گئی تو بہت سے یہودی وسیع پیمانے پر مشرق کی جانب نقل مکانی کرنے لگے۔ وہ زیادہ تر نوجوان اور درمانی عمر کے مرد تھے جنہیں خوف تھا کہ جرمن اُنہیں جبری مشقت کیلئے جلاوطن کر دیں گے۔ میں بھی خوفزدہ تھا لیکن میں ھینیا اور اپنے دو بچوں میریم اور فیسزل کو چھوڑ نہیں سکا۔اب جرمن شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ سڑکوں سے یہودیوں کو پکڑ کر مشقت کے گروہوں میں دھکیل رہے ہیں۔ میں جہاں تک ممکن ہے، اندر رہتا ہوں۔
1940-43 : یہودی گھیٹو یعنی یہودی بستی جو یہودی کوارٹرز کے وسطی علاقے میں تھی، چند ہفتے قبل سیل کر دی گئی۔ گیسیا اسٹریٹ پر واقع میرا گھر اور نووولپکی اسٹریٹ پر موجود میرا جنرل اسٹور بھی گھیٹو کے اندر ہی ہیں۔ صرف ایک محدود مقدار میں خوراک ہی قانونی طور پر گھیٹو کے اندر لائی جا سکتی ہے۔ لہذا میرا اسٹاک بہت کم رہ گیا ہے۔ میرے زیادہ تر گاہک محض بنیادی نوعیت کا سامان ہی خریدتے ہیں جن کی زندہ رہنے کیلئے ضرورت ہو یعنی روٹی، آلو اور ایرسیٹز فیٹ۔ وہ لوگ جو وسائل رکھتے ہیں، ہمیں بلیک مارکیٹ کے سامان سے اضافی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔
ویلویل اور اُن کے گھر والے جنگ میں زندہ نہ بچ سکے۔ خیال ہے کہ 1942 کے موسم گرما اور 1943 کے آغاز میں اُنہیں ٹریبلنکا کے قتل کے مرکز میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
آئٹم دیکھیںابراھیم پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا کا ایک کپڑوں کا کارخانہ اور پرچون کی دوکان تھی جس کا انتظام اُن کے والد کے سپرد تھا۔ ابراھیم کا خاندان وارسا کے یہودی علاقے میں رہتا تھا اور اُنہوں نے ایک یہودی اسکول میں ہی تعلیم حاصل کی۔ وارسا کی یہودی برادری تمام یورپ میں سب سے بڑی تھی، اور یہ شہر کی کل آبادی کے لگ بھگ ایک تہائی کے برابر تھی۔
1933-39 : 8 ستمبر، 1939 کو وارسا پر بمباری شروع ہونے کے بعد میرے خاندان کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ دوکانیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں؛ ہمارے پاس کوئی پانی یا ہیٹنگ نہیں تھی۔ کھانے کی تلاش میں میں جرمن بمباری سے بچتے ہوئے میں نے ایک قریبی اچار کی فیکٹری سے اچار کے سات جار چرائے۔ میرے خاندان نے کئی ہفتوں تک اچار اور چاول پر گذارہ کیا۔ پانی کی کمی کے باعث بمباری سے لگنے والی آگ بے قابو ہو گئی۔ امداد اُس وقت پہنچی جب دارالحکومت نے ہتھیار ڈال دئے۔
1940-1944 : اپریل 1943 تک میں وارسا گھیٹو میں جبری مشقت کے حصے میں تھا جو چاروں طرف سے دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ گھیٹو میں بغاوت کے دوران میں نے آگ کے شعلے اُٹھتے ہوئے دیکھے۔ ہمیں بالکل یقین نہ آیا۔ میں نے ایک طرف پوری کی پوری سڑکوں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ دوسری جانب میں نے وارسا کے غیر یہودی علاقے میں پولش لوگوں کو ایسٹر کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا۔ جب نازیوں نے بغاوت کے بعد گھیٹو کو بند کر دیا تو میں اور میرے والد اُن لوگوں میں شامل تھے جنہیں جلاوطن کرنے کیلئے مارچ کرایا گیا۔ پولش لوگ کنارے پر کھڑے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ اُن کی نظریں ہمارے سوٹ کیسوں کی جانب تھیں اور وہ کہ رہے تھے، "آپ لوگ تو مرنے کیلئے جا رہے ہیں۔ ان سوٹ کیسوں کو ہمارے لئے چھوڑ جائیں۔"
ابریھیم کو جلاوطن کر کے مجدانیک بھیج دیا گیا اور بعد میں بوخن والڈ سمیت سات دیگر کیمپوں میں بھیجا گیا۔ اُنہیں 30 اپریل، 1945 کو ڈاخو کیمپ جاتے ہوئے راستے میں آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیںایتھل وارسا میں رہنے والے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ 9 برس کی تھیں تو اُن کا خاندان وارسا کے جنوب مغرب میں 40 میل دور واقع قصبے موگیلنیکا میں منتقل ہو گیا۔ ایتھل کے والد کا زیادہ وقت مذہبی مضامین پڑھنے میں گذرتا تھا جبکہ اُن کی والدہ ایک شراب کی دوکان چلاتی تھیں۔ ایتھل دن کے وقت سرکاری اسکول جاتی تھیں اور شام کے وقت مذہبی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔
1933-39 : ایتھل ہمیشہ سے ایک استانی بننا چاہتی تھیں۔ 14 برس کی عمر میں لوڈز میں مذہبی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے کالسز کے قصبے میں پڑھانا شروع کر دیا جہاں اُن کے بھائی رہتے تھے۔ وہاں رشتہ کرانے والے ایک شخص نے اُن کی ملاقات زلمان بروکمین سے کرائی جنہوں نے پہلے اپنے ربی سے اور پھر ایتھل کے والد سے ایتھل سے شادی کرنے کی اجازت حاصل کی۔ 1939 میں اُن کی شادی ہو گئی۔ جب ستمبر میں جنگ شروع ہو گئی تو ایتھل موگیلنیکا واپس چلی آئیں۔ وہ اُس وقت چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔
1940-44 : ایتھل نے جنوری 1940 میں وارسا میں ایک بچے کو جنم دیا۔ نومبر تک وارسا کے یہودیوں کو گھیٹو میں محدود کر دیا گیا۔ ایتھل کے شوہر نے سونے کے ٹکڑے دے کر کھانا اور دوسرا سامان خریدا۔ 1942 کے آخر میں جب وسیع پیمانے پر جلاوطنیاں شروع ہو گئیں تو جن کے پاس سلائی کی مشینیں تھیں، اُنہیں ایک فیکٹری میں روک لیا گیا تاکہ وہ فوجی وردیاں سی سکیں۔ لہذا ایتھل کے شوہر نے دو سلائی کی مشینیں خریدیں۔ ایتھل نے اُس وقت تک فیکٹری میں کام کیا جب 1943 میں اسے بند کر دیا گیا۔
مئی 1943 میں گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والوں کو لوبلن کے قریب ٹرونیکی مزدور کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے ایتھل کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی۔
آئٹم دیکھیںفیلا ایک یہودی خاندان کے دو بچوں میں سے بڑی تھیں جو زیکروچزم میں رہتے تھے۔ یہ قصبہ وارسا کے قریب دریائے وستولا کے پاس واقع تھا۔ اُن کے والد ایک معزز وکیل تھے۔ ایک نوجوان عورت کی حیثیت سے فیلا نے وارسا میں ایک ہیٹ ڈیزائنر کے طور پر کام کیا اور پھر اُن کی شادی موشے گالک سے ہو گئی۔ اُس وقت اُن کی عمر 27 ، 28 برس ہو گی۔ شادی کی بعد وہ قریبی قصبے سوخوچن چلی گئیں جہاں اُن کے شوہر کا پرل بٹن کا کارخانہ تھا۔ فیلا اور موشے کی چار بیٹیاں ہوئیں۔
1933-39: 1936 میں گالک خاندان وارسا منتقل ہو گیا۔ وہ شہر کی ثقافتی زندگی سے متاثر ہوئے تھے۔ جب جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولنڈ پر حملہ کیا تو موشے نے فلسطین بھاگ جانے کی تجویز دی۔ اگرچہ فیلا صیہونی تھیں مگر اُنہوں نے اِس خیال کی مخالفت کی کیونکہ وہ کسی اور نئی جگہ جاکر ازسرنو زندگی شروع کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔ 28 ستمبر 1939 کو وارسا پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا اور دسمبر میں فیلا اور اُن کے ایل خانہ پہلے ہی سے مطلوبہ سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے تھے جن سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی تھی کہ وہ یہودی ہیں۔
1940-43: گالک خاندان کو نومبر 1940 میں وارسا یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ خاندان ایک گھر کے ایسے کمرے میں رہا جہاں اور بھی بہت سے خاندان رہائش پزیر تھے۔ خوراک کم تھی اور اُنہیں گھر پر ہی رہتے ہوئے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے وقت کاٹنا پڑتا تھا۔ یہ خاندان 1942 میں وسیع پیمانے پر کئے جانے والی ملک بدری سے تو بچ گیا لیکن اپریل 1943 کی آخری پکڑ دھکڑ کے دوران اُنہیں پکڑ لیا گیا جس کے بعد یہ یہودی بستی تباہ کر دی گئی۔
اِس پکڑ دھکڑ کے دوران فیلا اور موشے اپنے بچوں سے الگ ہو گئے۔ اُنہیں دیگر معمر افراد کے ساتھ ایک قطار میں کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.