فرانز اور اُن کا خاندان یہووا وھٹنس عقیدے کے پابند تھے۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریہ پر قنضہ کر لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے بعد فرانز کے والد کو اِس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ یہووا وھٹنس کے پیروکار ہونے کے ناطے جنگ کے مخالف تھے۔ 1940 میں فرانز نے فوجی تربیت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور نازی جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ اُنہیں قید کردیا گیا، گسٹاپو (جرمن خفیہ اسٹیٹ پولس) نے گراز میں اُن سے پوچھ گچھ کی اور پھر انہیں سزا کے طور پر جرمنی کے جبری مشقت کے ایک کیمپ میں پانچ سال کیلئے بھجوا دیا گیا۔ فرانز کو امریکی فوجوں نے 1945 میں آزاد کرا لیا۔
پھر مجھے پوچھ گچھ کے لئے ایک جیل میں لے جایا گيا۔ وہاں سے مجھے اسٹائریا کے دارالحکومت کے مقام گراز میں گسٹاپو منتقل کر دیا گیا۔ یہ وہاں سے کوئی 60 یا 70 کیلومیٹر دور تھا- اور وہاں مجھے گیسٹاپو کے لوگوں نے دھمکی دی: "اگر تم نے نازی نظریے سے الگ کوئی قدم اٹھایا تو تم دیکھو گے کہ کیا ہوگا" مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں یہ بیان دے کر نئے بھرتی ہونے والوں میں مایوسی پھیلا رہا ہوں کہ میں کبھی بھی ہٹلر کی قسم نہیں کھاؤں گا، میں کبھی اُس کیلئے نہیں لڑوں گا، میں نازی نشان کبھی نہیں پہنوں گا اور یہ کہ میں ہٹلر کی خدمت کرنے کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دوں گا۔ اِس وجہ سے مجھے تین ججوں کی ایک خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے میرا دفاع کرنے کے لئے ایک وکیل بھی مقرر کیا لیکن اس نے کہا "اگر تم جھکو گے نہیں تو میں کیا کرسکوں گا؟ تم جانتے ہو کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔" اور پھر ججوں کا فیصلہ میرے یقین پر مبنی تھا۔ ایک جج نے کہا کہ "ہم آپ کے مؤقف کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم جرمنی جس کیفیت سے گزر رہا ہے اُس کے پیش نظر نئے بھرتی ہونے والوں کے سامنے آپ کے بیانات بہت نقصان دہ ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارے لئے اور کوئی چارہ نہیں کہ آپ کو پانچ برس کی جبری مشقت کی سزا دے دی جائے"۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.