جوزیف اور اس کا خاندان ایک رومی کیتھولک تھے۔ سن 1939 میں پولنڈ پر جرمنی حملہ کے بعد، جرمنی میں زبردستی مزدوری کے لئے پولنڈیوں کے دور شروع ہوئے۔ جوزیف دو بار گرفتار ہوا مگر بچ کر نکل گیا لیکن تیسری بار سن 1941 میں اس کو جرمنی کے شہر ہانور میں زبردستی مزدوری کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ چار سال سے زیادہ اس پر زور ڈالا گيا کہ وہ فوجی ہوائي جہازوں کے کنکریٹ کے تعمیر میں کام کرے۔ سن 1945 میں امریکی فوجیوں کے ذریعہ آزادی کے بعد زبردستی مزدوری کیمپ کو بے گھر لوگوں کے کیمپ میں تبدیل کردیا گيا۔ جوزیف وہیں رہا حتی کہ اس نے سن 1950 میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں داخلے کے لئے ویزا حاصل کیا۔
ایک لکڑی کی بیرک ہوتی تھی۔ ہر کمرے میں تقریبا 20 بستر ہوتے تھے ایک لکڑی کے بکس کی طرح جس میں اوپر نیچے خانہ بنا ہو۔ اس کے علاوہ ایک کمرے میں الماریاں ہوتی تھیں جن میں ہم اپنا کچھ سامان وغیرہ رکھتے تھے۔ ہم لوگوں کے پاس کیا سامان ہوتا تھا؟ کھانا کھانے کے لئے ایک دھاتی پلیٹ، ایک چمچہ اور ایک کارڈ دیا جاتا تھا۔ یہ کارڈ ہمارا راشن کارڈ ہوتا تھا جس پر ہمیں کھانا ملتا تھا۔ جب ہم کیمپ میں آتے تو ہمیں سب سے پہلے نہانا ہوتا تھا۔ پھر مشترکہ کھانے کے کمرے میں آنا پڑتا تھا۔ ہمیں وہاں کھڑکی کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا تاکہ کھانا لے سکیں۔ ہم اس کھڑکی پر اپنا کارڈ دیتے اور وہ مہر لگاتے۔۔۔ پھر ہمیں ایک دوسری کھڑکی پر جانا ہوتا جہاں ہمیں تھوڑی سی روٹی ملتی۔ ہم اُسے کھاتے اور اس کے ایک گھنٹے کے بعد پھر بھوک لگنے لگتی۔ لیکن صبح تک ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا۔ صبح آپ کو کافی ملتی مگر وہ کافی کاسنی کی بنی ہوتی جو بہت ہی گرم اور کھٹی ہوتی۔ دوپہر کے وقت کوئي کھانا نہ ہوتا۔ صرف شام کے وقت کھانا ملتا تھا۔ یہ ہیں وہ تفصیلات جو میں کھانے سے متعلق بیان کررہا ہوں۔ کھانے کی مقدار 1943 سے کم ہونا شروع ہوئی اور 1944 سے 45 تک ایک دم کم ہوگئی یہاں تک کہ اُنہوں نے روٹی کا راشن بھی ختم کردیا اور ہم لوگ تقریبا بھوکے ہی رہتے تھے۔ یہ بھوک سب سے بڑی پریشانی تھی جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن تھا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.