مورس ایک بہت ہی مذہبی یہودی گھرانے میں پلے بڑھے اور وہ صیہونی اسپورٹس لیگ کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ جب جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کیا تو مورس کا قصبہ بری طرح تباہ و برباد ہوگیا۔ مورس کا خاندان یہودی بستی میں رہنے پر مجبور ہو گیا اور مورس کو جبری مشقت پر لگا دیا گیا۔ پرذیڈ بورز سے کوئی تیس میل دور قصبے کونسکئے میں کچھ عرصہ قید کاٹنے کے بعد مورس کو آش وٹز کیمپ پھجوا دیا گیا۔ اُنہیں آش وٹز کے ذیلی کیمپ جاویشووٹز میں رکھا گیا۔ جنوری 1945 میں مورس کو موت کے مارچ کیلئے مجبور کر دیا گیا اور اُنہیں پہلے بوخن والڈ کے ذیلی کیمپ ٹروئے گلٹز بھیجا گیا اور پھر تھیریسئن شٹٹ بھجوا دیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ کچھ عرصہ چیکوسلواکیہ اور جرمنی میں رہے اور پھر ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔
اور وہ فوراً ہی مارنا پیٹنا شروع کر دیتے۔ گسٹاپو اور ایس ایس کے لوگ وہاں موجود رہتے۔ اور جو کوئی بھی قریب سے گزرتا، اس سے کوئی فرق نہ پڑتا۔ اِس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں تھی کہ مارا پیٹا جاتا رہے۔ بالآخر ہم کیمپ کے اندر آئے اور وہاں وہی لوگ تھے۔ حراستی کیمپ کی وردیاں جو دھاری دار تھیں۔ ہم سب نے کاپو دیکھےاور وہ ہم سے کہنے لگے "یہ آش وٹز ہے۔" اُنہوں نے ہمیں بتایا "یہاں تم لوگ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر تم ایک یا پھر دو دن زندہ رہتے ہو، تم اتنا ہی زندہ رہ سکو گے۔" اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارے پیچھے دوڑتے، ہمیں مارتے پیٹتے۔ اُنہوں نے میری تصویریں لیں۔ میں تمام کا تمام ایک مجرم لگ رہا تھا۔ اُنہوں نے میرے کپڑے لے لئے۔ اُنہوں مجھے کہا کہ میں اپنے کپڑے ایک تھیلے میں رکھوں جس پر میرا نام لکھا ہوا ہے۔ پھر ہم گئے۔ اُنہوں نے ہمارے سر کے بال اُتار دئے۔ ہم جہاں بھی جاتے، ہمیں مارا پیٹا جاتا۔ ہر ہر قدم پر۔ پھر ہمیں جراثیم سے پاک کرنے کیلئے بھیجا نگیا۔ یہ کلورین سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا پیالہ سا تھا جس میں پانی کے ساتھ کلورین ملائی گئی تھی۔ اِس عمل سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اُنہوں نے ہمیں جراثیم سے پاک کر دیا ہے۔ اُس کے بعد ہمیں کپڑے پہننے کیلئے جانا تھا۔ ہم جہاں جہاں بھی جاتے، ہمیں قدم قدم پر پیٹا جاتا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.