مئی 1940 میں جب جرمنی نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا اتو اس وقت ٹینا میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ ٹینا اور اُن کے ساتھیوں نے خفیہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی اور وہ جنگ کے آغاز ہی سے یہودیوں کو اپنے گھر میں چھپنے کی سہولت فراہم کرتی تھیں۔ ٹینا یہودی بچوں کو بستیوں سے باہر اسمگل کرنے میں مدد کرتیں، اُن کے چھپنے کے لئے خفیہ جگہیں تلاش کرتیں، جعلی پاسپورٹ بناتیں اور خفیہ تنظیم کیلئے پیغام رساں کا کام کرتی تھیں۔
مثال کے طور پر مجھ سے کہا جاتا کہ "کیا آپ فلاں شخص کو فلاں پتے سے لے کر اُس وقت تک رکھ سکتی ہیں جب تک کہ ہم اُس کیلئے دوسری جگہ کا انتظام نہ کرلیں؟" اِس طرح کی تمام چیزیں کہنے کے لئے ہم کوڈ لفظ استعمال کرتے تھے۔ لہذا میں جاتی اور اس شخص کو لے آتی، مثال کے طور پر کوئي تین سالہ چھوٹا بچہ۔ پھر وہ مجھے بلاتے اور کہتے "کیا آپ ہمارے لئے انگاؤسن یا ہارن کرنے کے لئے سودا سلف لا سکیں گی؟" اور میں اس کا مطلب سمجھتی تھی کہ کچھ ہتھیار پہنچانے ہیں یا برطانیہ کے ساتھ رابطے کیلئے ریڈیو کے ذریعے پیغام بھیجانے والا آلہ لانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے کام میں پکڑے جانے پر بہت ہی سخت سزا دی جاتی تھی۔ اور پکڑے جانے کا بہت امکان رہتا کیونکہ وہ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو چیک کرتے۔ آپ اسے کیا کہیں گے؟ یہ سڑک پر ہر جگہ فوجیوں کیلئے لکڑی کے بنے ہوئے گھر سے ہوتے تھے جو دراصل نگرانی کی چوکیاں تھیں۔ وہ ہمیشہ اور ہر طرح سے آپ کی تلاشی لیتے رہتے تھے اور اگر آپ کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہوتی تو وہ اس کو رکھ لیتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ وہ آپ کی سائیکل لے لیتے اور آپ کو پیدل ہی گھر جانا پڑتا۔ اور اگر آپ کے پاس ریڈیو کے ذریعے پیغام بھیجنے والا آلہ ہوتا تو وہ آپ کو گولی ماردیتے تھے۔ یوں میں اس طرح کی خطرناک چیزیں لاتی تھی۔ ہم وھرماخٹ [جرمن مسلح افواج] سے چرائے گئے ہتھیاروں کو بھی چھپاتے تھے۔ مجھے کہا جاتا کہ کیا میں کچھ دنوں تک سامان رکھ سکتی ہوں۔ عام طور پر وہ دو ایک دنوں سے زیادہ کیلئے ہی رکھنا پڑتا۔ اس کے علاوہ اگر آپ سڑک پر آٹھ بجے کے بعد دکھائی دیتے تو وہ آپ کو گرفتار کرلیتے اور آپ کو جیل جانا پڑتا۔ اگر کوئی فوجی مرجاتا یا کوئی ریل کی پٹری دھماکے سے تباہ کر دی جاتی یا کسی طرح کی بھی کوئي تخریب کاری کی کارروائی ہوتی تو وہ جیل سے 100 لوگوں کو لیتے اور انھیں گولی ماردیتے۔ وہ معصوم لوگ یا تو کیمپ سے لئے جاتے یا پھر جیل سے۔ معصوم اس معنی میں کہ وہ کرفیو لگنے کے بعد ایک منٹ لیٹ ہوگئے۔ لہذا اگر آپ کو لوگوں کو ملک میں لے جانا پڑتا تھا تو کرفیو کے ختم ہونے سے پہلے واپس لوٹنا بہت ہی مشکل ہو جاتا۔ لہذا مجھے بعض اوقات رات میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ آٹھ بجنے پر آپ کو ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک اندھیرے میں رینگنا پڑتا تاکہ آپ وقت پر واپس لوٹنے کے لئے کوئي پناہ گاہ تلاش کرسکیں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.