این فرینک ہولوکاسٹ میں جاں بحق ہونے والے دس لاکھ سے زائد یہودی بچوں میں سے ایک تھی۔ چھپے رہنے کے دوران این اپنی ڈائری میں اپنے خوف، امیدوں اور تجربات کے متعلق لکھتی رہی۔ خاندان کی گرفتاری کے بعد ایک خفیہ اپارٹمنٹ میں ملنے والی اس ڈائری کو میپ گیز نامی ایک شخص نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، جو فرینک خاندان کو چھپنے میں مدد دینے والوں میں سے ایک تھا۔ اسے جنگ کے بعد کئی زبانوں میں شائع کیا گيا، اور یہ آج بھی دنیا بھر میں ہزاروں مڈل اور ہائی اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ این فرینک ہولوکاسٹ میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے لئے گم شدہ وعدے کی علامت بن چکی ہے۔ این 12 جون 1929 کو فرینکفرٹ میں اوٹو اور ایڈیتھ فرینک کے گھر پیدا ہوئی۔ پانچ سال کی عمر تک این اپنے والدین اور بڑی بہن مارگوٹ کے ساتھ فرینکفرٹ کے مضافات میں ایک اپارٹمنٹ میں رہی۔ 1933 میں نازیوں کے اقتدار چھیننے کے بعد فرینک خاندان فرار ہو کر نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم چلا گیا۔ جرمنوں نے مئی 1940 میں ایمسٹرڈيم پر قبضہ کر لیا۔ جولائی 1942 میں جرمن حکام اور ان کے ڈچ مددگاروں نے یہودیوں کو نیدرلینڈ سے جرمن مقبوضہ پولینڈ میں قتل کے مراکز کی طرف بھیجنا شروع کر دیا۔

جولائی 1942 کے پہلے نصف حصے کے دوران این اور اس کے گھر والے دوسرے یہودی خاندانوں کے ساتھ چھپ گئے۔ دو سال تک وہ 263 پرنسینگراخٹ اسٹریٹ میں اپنے خاندانی کاروبار کے دفتر کے پیچھے ایک خفیہ ایٹک کے اپارٹمنٹ میں چھپے رہے جسے این نے اپنی ڈائری میں خفیہ انیکس کا نام دیا۔ دوست اور رفقائے کار اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر فرینک خاندانکو اشیائے خوردونوش اور کپڑے پہنچاتے رہے۔ 4 اگست 1944 کو گسٹاپو (جرمن خفیہ اسٹیٹ پولیس) کو ایک گم نام ڈچ کال کرنے والے کی مخبری کے بعد یہ جگہ ملی، اور اس نے مکینوں کو حراست میں لے لیا۔ ستمبر 1944 میں حکام نے فرینک خاندان اور ان کے ساتھ چھپنے والے چار افراد کو آشوٹز جانے والی ایک ریل گاڑی میں بٹھا دیا۔ این اور اس کی بہن کو کم عمری کی وجہ سے مزدوری کے لئے منتخب کیا گیا، اور انہيں اکتوبر 1944 کے اختتام پر شمالی جرمنی میں واقع برجن-بیلسن حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ مارچ 1945 میں، برطانوی افواج کی طرف سے کیمپ کو آزاد کرانے کے چند ہفتے قبل دونوں بہنیں ٹائفس کے باعث ہلاک ہو گئيں۔ این کی والدہ کا انتقال جنوری 1945 میں آشوٹز میں ہوا۔ این کے والد آٹو جنگ میں زندہ بچ گئے۔