نسلی عصبیت: ایک جائزہ
نسلی عصبیت رکھنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ خاندانی موروثی خصوصیات حیاتیاتی سطح پر انسانی رویے کا تعین کرتی ہیں۔ نسلی تعصب کے نظریے میں زور دیا جاتا ہے کہ خون قومی اور نسلی شناخت کا نشان ہے۔ اس نسلی عصیبت کے فریم ورک کے مطابق کسی انسان کی قدروقیمت کا تعین اُس کی انفرادیت سے نہیں ہوتا بلکہ کسی مخصوص اجتماعی نسلی قوم کے رکن کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ بیشتر دانشوروں نے جن میں سائینسدان بھی شامل ہیں نسلی تعصب کے تصور کی جعلی سائینسی بنیادوں پر حمایت کی ہے۔ ہیسٹن اسٹیوارٹ چیمبرلین جیسے انیسویں صدی کے نسلی طور پر متعصب دانشوروں نے اڈولٖ ہٹلر کی نسل کے بیشتر افراد پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
نسلی عصبیت بشمول نسلی بنیادوں پر سام دشمنی (یہودیوں کے خلاف جھوٹے اور غلط حیایاتی نظریات پر مبنی نفرت یا تعصب) جرمن قومی سوشلزم یعنی نازی ازم کا ہمیشہ سے ہی ایک ناگزیر حصہ رہا ہے۔ نازیوں نے تمام انسانی تاریخ کو مختلف نسلوں کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں سامنے آنے والی حیاتیاتی تاریخ کے طور پر لیا ہے۔ نازیوں کا خیال تھا کہ مارکسزم، کمیونزم، پیسیفزم اور انٹرنیشل ازم جیسی سیاسی تحریکیں قومیت پرستی کے خلاف ہیں اور خطرناک نسلی بنیادوں پر تشکیل پانے والی یہودی دانش وری ہے۔ 1931 میں ایس۔ ایس (نازی حکومت کی خصوصی گارد شُٹزاسٹافین) نے نسل پر تحقیق کرنے اور ایس۔ ایس کے ارکان کیلئے ممکنہ مناسب جیون ساتھیوں کا تعین کرنے کی خاطر ریس اینڈ سیٹلمنٹ آفس قائم کیا۔ جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو 1935 میں نیورمبرگ قوانین کی منظوری دی جس میں یہودی ہونے کی ممکنہ حیاتیاتی وضاحت کا کوڈ بھی شامل تھا۔
نازی نسل پرستوں نے ذہنی اور جسمانی مریضوں کو ماسٹر ریس کہلانے والے جینیاتی لینڈ اسکیپ پر ایک بدنما داغ سمجھا۔ جب اُن کی اولاد ہوتی تو اُسے وہ آریائی نسل کی تطہیر کیلئے ایک بائیو لوجیکل خطرہ قرار دیتے۔ 1939 کے آخری چھ ماہ کے دوران محتاط منصوبہ بندی اور معلومات جمع کرنے کے بعد جرمن ڈاکٹروں نے جرمنی بھر میں ایک کارروائی کرتے ہوئے معذور افراد کے قتل کا آغاز کیا جسے اُنہوں نے "رحمدلانہ موت" دینے کا اقدام قرار دیا۔
نسل کے بارے میں نازی نظریات کے مطابق جرمن اور شمالی یورپی لوگ "آریائی" تھے جو ایک اعلٰی اور برتر نسل تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی ڈاکٹروں نے جعلی طبی تجربات کئے جن کا مقصد آریائی برتری اور غیر آریائی پستی کو ثابت کرنے کیلئے جسمانی شہادت اور ثبوت تلاش کرنا تھا۔ اِن تجربات کے دوران ان گنت غیر آریائی افراد کو ہلاک کرنے کے باوجود نازی انسانوں کے درمیان اپنے حیاتیاتی نسلی نظریات کے تحت کسی قسم کا فرق تلاش نہیں کر پائے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی قیادت نے پولینڈ اور سوویت یونین کے مۡبوضہ مشرقی علاقوں میں بقول اُن کے نسلی تطہیر کے عمل کا آغاز کیا۔ اِس پالیسی میں نسل کے دشمن کہلائے جانے والے افراد کے قتل اور خاتمے کے اقدام شامل تھے۔ اِن میں یورپی یہودیوں کی قتل و غارتگری اور سلاوک افراد کی تباہی بھی شامل تھی۔ نازی نسلی عصبیت نے جس سطح پر قتل و غارتگری کا بازار گرم کئے رکھا اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔