جنگ عظیم سے پہلے پولینڈ میں وارسا کے بعد لوڈز کی یہودی آبادی دوسری سب سے بڑی آبادی تھی۔ جرمن فوجیں ستمبر 1939 میں لوڈز پر قابض ہو گئی تھیں۔ فروری 1940 کے آغاز میں جرمنوں نے لوڈز میں ایک یہودی بستی قائم کی اور اس کے تقریباً ڈیڑھ مربع میل رقبے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد یہودیوں کو ٹھونس دیا تھا۔ 1941 اور 1942 میں مرکزی یورپ سے تقریباً 40,000 یہودی اور 5,000 روما (خانہ بدوشوں) کو بھی جبراً اس یہودی بستی میں پہنچا دیا گیا۔ 1942 میں جنوری اور ستمبر کے درمیان اس یہودی بستی کے 75,000 سے زائد رہائشیوں کو لوڈز سے جلاوطن کر کے چیلمنو کی قتل گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ 1944 کے موسم بہار تک لوڈز یہودی بستی جرمن مقبوضہ پولینڈ میں باقی رہ جانے والی واحد یہودی بستی تھی۔ اُسی سال موسم گرما کے دوران جرمنوں نے باقی رہ جانے والے یہودیوں کو بھی جلاوطن کر دیا۔ ان میں سے اکثر کو آشوٹز پہنچایا گیا۔
لوڈز کا صنعتی شہر پولینڈ کے شہر وارسا کے جنوب مغرب میں تقریباً 75 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ تقریباً 220,000 کی یہودی آبادی کے ساتھ لوڈز قبل از جنگ کے پولینڈ میں وارسا کے بعد دوسری سب سے بڑی یہودی آبادی کا شہر تھا۔
جرمنوں نے یکم ستمبر، 1939 کو پولینڈ پر حملے کے ایک ہفتے بعد لوڈز پر قبضہ کر لیا۔
فروری 1940 میں اُنہوں نے شہر کے شمال مشرقی حصے میں ایک یہودی بستی قائم کر دی۔ 150,000 سے زائد یہودیوں کو اس جگہ منتقل ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ بستی اپریل 1940 میں سیل کر دی گئی۔
مورڈیکائے کائم رمکوسکی نازیوں کی طرف سے مقرر کردہ یہودی کونسل کے سربراہ تھے۔ اُن کا فرض منصبی نازیوں کے احکام پر عمدرآمد تھا۔ یوں یہودی کونسل کے حکام کو ایک مشکل اخلاقی صورت حال کا سامنا تھا۔
رمکوسکی نے یہودی بستی کے وجود کے تمام تر وقت کے دوران بستی کی آبادی کی فیکٹریوں کیلئے مزدوروں کی فراہمی کی بنیاد پر منظم کی۔
اُن کی دلیل یہ تھی کہ جرمن پیداوار کیلئے یہودی لیبر کو لازمی قرار دینے سے ممکنہ طور پر لوڈز یہودی بستی کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔
1941 اور 1942 میں مرکزی یورپ کے لگ بھگ 40,000 یہودیوں کو لوڈز یہودی بستی میں جلا وطن کر دیا گیا۔ 5,000 روما (خانہ دوشوں) کو بھی آسٹریا سے جلا وطن کر کے لوڈز لایا گیا اور اُنہیں یہودی بستی کے ایک الگ حصے میں محدود رکھا گیا۔
وہاں زندگی کی اہم حقیقتوں میں سخت مشقت، محدود جگہ پر بہت زیادہ لوگوں کی بھرمار اور شدید بھوک پیاس نمایاں تھے۔ یہودی بستی کے 20 فیصد سے زائد ریہائشی ان مشکل حالات زندگی کے باعث ہلاک ہوئے۔
جنوری 1942 میں جرمنوں نے لوڈز یہودی بستی سے بڑے پیمانے مکینوں کی جلاوطنیاں شروع کیں اور اُنہیں چیلمنو کے قتل کے مرکز میں پہنچایا جو مغربی سمت میں 45 میل کے فاصلے پر تھا۔
یہودیوں کو بستی بھر میں اسمبلی کے مقامات پر اکٹھا کیا جاتا اور پھر اُنہیں پہلے سے بھری ہوئی ریل گاڑیوں میں دھکیل دیا جاتا۔
ستمبر 1942 کے آخر تک تقریباً 70,000 یہودیوں اور لگ بھگ 5,000 روما خانہ بدوشوں کو چیلمنو جلاوطن کیا گیا جہاں زیادہ تر افراد کو سربمہر گیس کی ویگنوں میں ہلاک کر دیا گیا۔
ستمبر 1942 اور مئی 1944 کے درمیان لوڈز یہودی بستی سے کوئی بڑی جلاوطنیاں نہیں ہوئیں۔ اس دوران بستی ایک وسیع لیبر کیمپ کا نقشہ یش کرتا رہا۔
بستی کے مکینوں کی ایک بھاری اکثریت جرمن فیکٹریوں میں کام کرتی تھی جس کے عوض اُنہیں بہت ہی قلیل مقدار میں راشن ملتا تھا۔
جرمنوں نے 1944 کے موسم بہار میں لوڈز یہودی بستی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت یہ بستی پولینڈ میں باقی رہ جانے والی آخری یہودی بستی تھی۔ جون اور جولائی 1944 میں یہاں سے چیلمنو کیلئے جلاوطنیاں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔
رمکوسکی سمیت 75,000 کے لگ بھگ یہودیوں کی آشوٹز۔برکیناؤ کے قتل کے مرکز میں جلاوطنی اور اُن کے خاتمے کے ساتھ اگست میں لوڈز یہودی بستی کی تباہی کا کام مکمل ہو گیا۔
سوویت فوجوں نے جنوری 1945 میں لوڈز کو آزاد کرایا۔ بستی کے وجود کے دوران 200,000 سے زیادہ یہودیوں کو لوڈز یہودی بستی میں جبراً رکھا گیا۔
لوڈز میں 1,000 سے کم یہودی چھپ کر یا جبری مشقت کے کیمپوں میں رہنے کے باعث زندہ بچ جانے میں کامیاب ہو پائے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.