سن 1945 میں جب اتحادی فوجیں حراستی کیمپوں میں داخل ہوئیں تو انہیں لاشیں، ہڈیاں اور انسانی راکھ ملی جو اجتماعی قتل کا ثبوت تھا۔ فوجیوں نے ہزاروں بچے ہوئے لوگوں کو پایا جو بھوک اور بیماری سے مر رہے تھے۔ ان میں یہودی اور غیر یہودی دونوں ہی شامل تھے۔ آزادی کے بعد، کئی یہودی جاری سام دشمنی (یہودیوں سے نفرت) کی وجہ سے اپنے سابقہ گھروں کو واپس جانے سے ڈرتے رہے۔ کچھ لوگ جو گھروں کو لوٹ گئے، اُنہیں بھی موت کا ڈر لگا رہتا تھا۔ ہجرت کے کم امکانات کی وجہ سے ہولوکوسٹ میں بچ جانے والے ہزاروں بے گھر لوگ مغرب کی جانب دوسرے یورپی علاقوں کی طرف چلے گئے۔ وہاں انہيں سینکڑوں پناہ گزینوں کے مراکز اور بے گھر افراد کے کیمپوں میں رکھا گیا۔ (p) مختلف یہودی ایجنسیاں بے گھر افراد کی مدد کے لئے کام کرتی رہیں۔ پناہ گزینوں نے خود اپنی تنظیمیں بھی قائم کیں۔ 1944 کے آخر میں یہودی بریگیڈ گروپ (جو برطانوی فوج کا فلسطینی یہودی یونٹ تھا) قائم کیا گيا۔ وسطی یورپ میں بے دخل ہونے والے سابقہ گوریلا سپاہیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے، یہودی بریگیڈ گروپ نے یورپ سے فلسطین میں یہودی پناہ گزینوں کے انخلاء میں مدد فراہم کرنی شروع کی۔ 1947 میں برطانیہ نے فلسطین کا رخ کرنے والے جہاز ایکسوڈس 1947 کو، جس میں 4500 ہولوکاسٹ سے بچنے والے سوار تھے، جرمنی واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ زيادہ تر صورتوں میں برطانیہ نے فلسطین میں داخلے کے لئے مسترد ہونے والے یہودی پناہ گزینوں کو سائپرس کے میڈیٹرینین جزیرے میں حراستی کیمپوں میں رکھا۔ مئی 1948 میں اسرائيل کی ریاست کے قائم ہونے کے بعد، یہودی بے گھر افراد اور پناہ گزیں اس نوزائیدہ خود مختار مملکت کی طرف روانہ ہونے لگے۔ یورپ کے دیگر یہودی بے دخل افراد اور پناہ گذینوں کی حیثیت سے کینڈا، آسٹریلیہ، نیوزی لینڈ، مغربی یورپ، میکسیکو، جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ ہجرت کر گئے۔