اولمپک اسٹیڈیم کا ایک منظر۔ یہ ریخ اسپورٹس فیلڈ کا مرکزی مقام تھا۔

جرمنی میں 1933 میں ایڈولف ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد امریکہ اور دیگر مغربی جمہوریتوں کے مبصرین نے نازی جرمنی کی طرف سے اولمپک کھیلوں کی میزبانی کی حمایت کرنے کے اخلاقی جواز پر سوال کھڑے کئے۔

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے جون 1933 میں جرمن اولمپک کمیٹی سے عہد حاصل کیا کہ جرمنی اولمپک چارٹر کی پاسداری کرے گا۔ چارٹر کے تحت کھیلوں میں تمام امتیازی سلوک پر مکمل پابندی تھی۔ یوں جب نازی جرمنی میں سیاہ فام کھلاڑیوں کی حفاظت کے بارے میں خدشات کو ختم کیا گیا تو زیادہ تر افریقی امریکی اخبارات نے 1936 کے اولمپک کھیلوں کا بائکاٹ کرنے کی مخالفت کر دی۔

فلاڈیلفیا ٹربیون اور شکاگو ڈینفنڈر جیسے اخبارات کے لکھنے والوں نے دلیل دی کہ سیاہ فام کھلاڑیوں کی کامیابیاں نازیوں کے نسلی خیالات میں پائے جانے والے نسلی امتیاز اور "آرین برتری" پر اصرار کو کمزور کر دیں گی۔ انہوں نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ اس طرح کی فتوحات اُن کے اپنے وطن میں بھی سیاہ فام تفاخر کے ایک نئےاحساس کو فروغ دیں گی۔ شکاگو ڈیفنڈر نے 14 دسمبر 1935 کو خبر دی کہ ٹریک کے نمایاں افریقی امریکن کھلاڑیوں میں سے یولیس پیکاک، جیس اوونز اور رالف میٹکالف نے اولمپکس میں شمولیت کی حمایت کی کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی فتوحات نازی نسلی نظریات کو مسترد کرنے کا کام سرانجام دیں گی۔

کھلاڑی

1936 میں سیاہ فام کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعداد اولمپکس میں مقابلہ کرنے کی اہل تھی اور بالآخر 16 مرد اور 2 خواتین سمیت 18 افریقی امریکن کھلاڑی برلن گئے۔ یہ تعداد 1932 میں لاس اینجلس گیمز میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد کا تین گنا تھی۔

1936 کے سرمائی اولمپک کھیلوں کا افتتاح

میڈل جیتے والے افریقی امریکن کھلاڑی

ڈیوڈ البریٹن
ہائی جمپ، نقرئی تمغہ

کارنیلئس جانسن
ہائی جمپ، سونے کا تمغہ

جیمز لوال
400 میٹر دوڑ، کانسی کا تمغہ

ایلف میٹکالف
4X100 میٹر ریلے سونے کا تمغہ،
100 میٹر دوڑ نقرئی تمغہ

جیسی اووینز
100 میٹر دوڑ سونے کا تمغہ،
200 میٹر دوڑ سونے کا تمغہ
براڈ(لانگ) جمپ سونے کا تمغہ،
4X100 میٹر ریلے سونے کا تمغہ

فریڈرک پولارڈ جونیئر
110 میٹر ہرڈلز، کانسی کا تمغہ

میتھیو روبنسن
200 میٹر دوڑ، نقرئی تمغہ

آرچیبالڈ ولیمز
400 میٹر دوڑ، سونے کا تمغہ

جیک ولسن
بینٹم ویٹ باکسنگ، نقرئی تمغہ

جان ووڈرف
800 میٹر دوڑ، سونے کا تمغہ

امتیازی سلوک

امریکی رنر جیسے اوونز 200 میٹر کی دوڑ کا آغاز کر رہا ہے جس میں اس نے 20.7 سیکنڈ کا ایک نیا اولمپک ریکارڈ قائم کیا۔

سیاہ فام کھلاڑیوں کے لئے اولمپکس نے ایک خصوصی موقع فراہم کیا۔ 1930 کی دہائی میں سیاہ فام لوگوں کو امریکی زندگی کے زیادہ تر امور میں امتیازی سلوک کا سامنا تھا۔ سفید فام لوگوں کی جانب سے سیاہ فام افراد کو بے اختیار اور نسلی منافرت کا شکار رکھنے کے لئے وضع کئے گئے "جم کرو" قوانین نے افریقی امریکیوں کو بہت سی ملازمتوں اور عوامی مقامات میں داخل ہونے سے محروم کر دیا جن میں ریستوران، ہوٹل اور دیگر مقامات شامل تھے۔ خاص طور پر جنوبی علاقوں میں سیاہ فام افراد نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے خوف میں مبتلا رہتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی فوج میں بھی بدستور نسلی منافرت موجود تھی۔

کھیل

کھیلوں کے شعبےمیں سیاہ فام لوگوں کے لئے کالج اور پیشہ ورانہ سطح پر مواقع محدود تھے۔ سیاہ فام صحافیوں نے اولمپک کھیلوں کا بائکاٹ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر کھلاڑیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں اتنی زیادہ باتیں کرتے ہیں لیکن اپنی سرزمین پر کھلاڑیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے بارے میں کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ تمام سیاہ فام اولمپینز شمالی یونیورسٹیوں سے آئے ہیں جہاں زیادہ تر سفید فام طلباء ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیفیت روایتی سیاہ فام کالجوں میں تربیتی سامان اور سہولیات کی ابتر صورت حال کو ظاہر کرتی ہے جہاں 1930 کی دہائی میں زیادہ تر افریقی نژاد امریکی طلباء زیر تعلیم تھے۔

مسلسل جری امتیازی سلوک

1936 کے برلن اولمپکس میں حصہ لینے والے افریقی نژاد امریکی کھلاڑیوں نے 14 تمغے جیتے۔ امریکہ واپس آنے کے بعد سیاہ فام کھلاڑیوں کو جس مسلسل سماجی اور اقتصادی امتیاز ی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نسل پرست جرمنی میں حاصل ہونے والی فتوحات ایک ستم ظریفی سے کم نہ تھیں۔