وارسا جدید ریاست پولینڈ کا دارالحکومت ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل یہ شہر یہودی زندگی اور ثقافت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ وارسا کی قبل از جنگ یہودی آبادی شہر کی کل 350,000 آبادی کا تقریباً 30 فیصد تھی۔ وارسا کی یہودی کمیونٹی یورب بھر میں سب سے بڑی تھی، اور یہ نیو یارک سٹی کے بعد دنیا بھر کی سب سے بڑی یہودی کمیونٹی تھی۔ یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد وارسا کو شدید حملہ برداشت کرنا پڑا۔ پولینڈ کے ہتھیار ڈال دینے کے کچھ ہی دیر بعد 29 ستمبر کو جرمن فوجی وارسا میں داخل ہو گئے۔ 23 نومبر 1939 کو قابض جرمن سویلین حکام نے یہودیوں کیلئے یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ اپنی شناخت کی خاطر اپنے بازو کے گرد سفید پٹی لگائیں جس پر حضرت داوًد کا نیلا ستارہ ہو گا۔ جرمنوں نے یہودی اسکول بند کر دئے، یہودی ملکیت کی جائیدادیں ضبط کر لیں، اور یہودی مردوں کو جبری مشقت پر مامور کر دیا۔

جرمنوں نے 12 اکتوبر 1940 کو وارسا میں گھیٹو یعنی یہودی بستی قائم کرنے کے سلسلے میں قانونی حکم جاری کر دیا؛ اُنہوں نے نومبر 1940 میں تمام یہودیوں کیلئے یہ لازمی قرار دے دیا کہ وہ اس علاقے میں منتقل ہو جائیں جسے شہر کے باقی حصے سے سیل کر دیا گیا تھا۔ گھیٹو کے ارد گرد ایک دیوار تعمیر کر دی گئی تھی جو دس فٹ سے زیادہ اونچی تھی۔ اس کے اوپر خاردار تار لگا دی گئی تھی اور اس پر شدید پہرہ رکھ دیا گیا تھا۔ گھیٹو کی آبادی قریبی قصبوں سے یہودیوں کی آمد کے بعد 400,000 سے بڑھ گئی۔ جرمن حکام نے گھیٹو کے رہائشیوں کو محض 1.3 مربع میل رقبے کے اندر رہنے پر مجبور کر دیا جہاں 7.2 افراد ایک کمرے میں رہنے پر مجبور تھے۔ گھیٹو کے اندر موجود یہودی فلاحی تنظیموں نے ایسے رہائشیوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی جو زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ جرمنوں نے ان کیلئے جو راشن مقرر کیا تھا وہ زندہ رہنے کیلئے ناکافی تھا۔ 1940 اور وسط 1942 کے درمیان گھیٹو میں 83,000 یہودی بھوک اور بیماری سے ہلاک ہو گئے۔

22 جولائی سے 12 ستمبر 1942 تک جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹوں نے ذیلی اداروں کی مدد سے وارسا گھیٹو سے وسیع پیمانے پر لوگوں کو ٹریبلنکا قتل کے مرکز میں جلا وطن کیا۔ اس مدت کے دوران جرمنوں نے تقریباً 265,000 افراد کو وارسا سے ٹریبلنکا منتقل کیا؛ اُنہوں نے اس کارروائی کے دوران گھیٹو کے اندر 35,000 کے لگ بھگ یہودیوں کو ہلاک کر دیا۔ جنوری 1943 میں ایس ایس اور پولیس کے یونٹ گھیٹو میں باقی رہ جانے والے یہودیوں کو جبری مشقت کے کیمپوں میں منتقل کرنے کیلئے دوبارہ وارد ہوئے۔ تاہم اس مرتبہ بہت سے یہودیوں نے جلاوطنی کے خلاف مزاحمت کی اور کچھ نے اس کیلئے اسمگل شدہ ہتھیار بھی استعمال کئے۔ ایس ایس نے تقریباً 5,000 یہودیوں کو پکڑنے کے بعد یہ کارروائی ختم کر دی اور وہاں سے چلے گئے۔ 19 اپریل 1943 کو ایک نئی ایس ایس اور پولیس فورس گھیٹو کی دیوار کے باہر پہنچی تاکہ باقی ماندہ یہودیوں کو وہاں سے جلا وطن کیا جا سکے۔ گھیٹو کے رہائشیوں نے پرتشدد انداز میں مزاحمت کی اور بہترین انداز میں مسلح جرمن یونٹوں کو جانی نقصان پہنچایا۔ وہ چار ہفتے تک مزاحمت کرتے رہے لیکن پھر جرمنوں نے 16 مئی کو اُن پر قابو پا لیا۔ جرمنوں نے پکڑے جانے والے تقریباً 42,000 یہودیوں کو جلا وطن کر کے جبری مشقت کے کیمپوں اور مجدانیک حراستی کیمپ میں پہنچا دیا۔ گھیٹو میں مزاحمت کے دوران کم سے کم 7,000 یہودی ہلاک ہوئے جبکہ ایس ایس اور پولیس نے مزید 7,000 یہودیوں کو ہلاک کرنے کی غرض سے ٹریبلنکا پہنچا دیا۔

یکم اگست کو سوویت فوجیوں کی آمد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پولش ھوم آرمی کے نام سے قائم ایک قومی خفیہ مزاحمتی فوج وارسا کو آزاد کرانے کیلئے قابض جرمنوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ سوویت فوجی مداخلت کرنے میں ناکام رہے؛ اکتوبر 1944 میں جرمنوں نے بغاوت کو کچل دیا اور شہر کے مرکز کو تباہ کر دیا۔ اگرچہ جرمنوں نے گرفتار شدہ ھوم آرمی کے جنگجووّں کو جنگی قیدی تصور کیا، اُنہوں نے ان پولش سویلین افراد میں سے ھزاروں کو حراستی کیمپوں میں بھیج دیا۔ وارسا کی بغاوت کے دوران 166,000 افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں سے 17,000 کے قریب پولش یہودی تھے۔ جب سوویت فوجوں نے 17 جنوری 1945 کو اپنے حملے دوبارہ شروع کئے تو اُنہوں تباہ شدہ وارسا کو آزاد کرا دیا۔ اُس وقت شہر میں صرف 174,000 لوگ باقی بچے تھے جو جنگ سے قبل کی آبادی کا محض 6 فیصد ہے۔ زندہ بچ جانے والے ان افراد میں سے تقریباً 11,500 یہودی تھے۔