نازی حکومت نے اکثر یہودی اور غیر یہودی خواتین کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا جو بعض اوقات ان کی جنس کے حوالے سے منفرد تھا۔ بعض انفرادی کیمپوں اور حراستی کیمپوں کے اندر مخصوص علاقوں کو خاص طور پر زنانہ قیدیوں کیلئے قائم کیا گيا تھا۔ مئی سن 1939 میں نازیوں نے ریونزبروئیک کیمپ کھولا جو خواتین کے لئے قائم کیا جانے والا سب سے بڑا حراستی کیمپ تھا۔ سوویت یونین کی طرف سے 1945ء میں ریونزبروئیک کیمپ کو آزاد کرانے تک اس کیمپ میں 100,000 سے زیادہ خواتین کو قید کیا گيا تھا۔ حاملہ یہودی خواتین اور چھوٹے بچوں کی ماؤں کو قتل گاہوں میں بھیج دیا گیا جہاں کیمپ کے حکام ان کو گیس چیمبرز میں داخل کئے جانے والے پہلے گروپس میں شامل کرتے تھے۔ یہودی بستیوں اور کیمپوں دونوں جگہوں پر عورتوں کو خاص طور پر مارنے کیلئے اور ان کی عزت لوٹنے کیلئے ان کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اکثر حاملہ یہودی عورتیں اپنے حمل کو چھپائے رکھتی تھیں یا ان پر اسقاط حمل کیلئے زور ڈالا جاتا تھا۔ جرمن ڈاکٹروں نے یہودی اور روما (خانہ بدوش) عورتوں کو نسبندی کے تجربات کے موضوعات کے طور پر استعمال کیا۔

خواتین نے، خاص طور پر وہ جو سوشلسٹ، کمیونسٹ، یا صیہونی نوجوانوں کی تحریکوں میں ملوث تھیں، مختلف مزاحمتی سرگرمیوں میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ بہت سی خواتین مشرقی پولینڈ اور سوویت یونین کے جنگلوں میں بھاگ کر چھپ گئيں اور مسلح حمایتی یونٹوں میں خدمات انجام دیں۔ کچھ خواتین یہودی بستی کی مزاحمتی تنظیموں کی سربراہان یا ممبران تھیں۔ دوسری خواتین حراستی کیمپوں کے اندر مزاحمت میں مصروف تھیں۔ یانچ یہودی زنانہ قیدیوں نے گیس چیمبر تباہ کرنے کیلئے بارود فراہم کئے اور اکتوبر 1944 میں آشوٹز برکیناؤ کی قتل گاہ میں بغاوت کے دوران بہت سے ایس ایس اہلکار ہلاک کردئے۔ ہولوکاسٹ کے زمانے میں لاکھوں عورتوں کو مسلسل ایذائیں دی گئی اور انھیں قتل کیا گیا۔ تاہم، خلاصہ کلام یہ کہ ان کو ان کی جنس کی وجہ سے نہیں بلکہ نازی نسل پرستی کے مطابق ان کی زمرہ بندی، یا ان کی مذہبی اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ان کو نشانہ بنایا گيا۔