ہین جرمنی کے شہر کارل سروہے میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد میکس ایک فوٹوگرافر تھے۔ جب 1925 میں اُن کا انتقال ہوا تو ہین کی والدہ ایلا نے اُن کےاسٹوڈیو کا کام جاری رکھا۔ 1930 میں ہین نے سرکاری اسکول جانا شروع کیا۔
1933-39: اپریل 1933 میں کارل سروہے میں یہود مخالف بائیکاٹ کے دنون میں وہاں موجود یہودیوں کے دیگر کاروباروں کی طرح ہمارے اسٹوڈیو پر پلاسٹر سے نشانات لگا دئے گئے۔ "یہودیوں سے مت خریدیں" اسکول میں ایک ہم جماعت نے مجھے اپنے طعنوں سے اتنا زیادہ طیش دلایا کہ میں نے اسکا سوئیٹر پھاڑ دیا۔ نومبر 1938 کے منظم قتل عام کے بعد اسٹوڈیو نئے شناختی کارڈوں کے لئے فوٹو اتارنے میں مصروف تھا۔ اِن پر "J" کا نشان ہوتا تھا اور یہودیوں کو ہر وقت یہ نشان ساتھ رکھنا پڑتا تھا۔ اسٹوڈیو 31 دسمبر تک چلتا رہا جب تمام یہودی کاروباروں کو بند کردیا گيا تھا۔
1940-44: ہمیں 1940 میں جلا وطن کر کے گرس بھجوا دیا گیا۔ یہ فرانسیسی ہسپانوی سرحد پر وکی حراستی کیمپ تھا۔ مجھے ایک سماجی کارکن سے معلوم ہوا کہ لی چیمبون گاؤں کے ایک پادری کیمپ سے بچوں کو نکالنا چاہتے تھے۔ چلرڈرنز ایڈ سوسائیٹی کے اِس سماجی کارکن نے مجھے باہر نکالا۔ آزاد ہونا جنت جیسی بات تھی۔ لیکن 1942 میں جرمن فوجی لی چیمبون تک بھی پہنچ گئے اور مجھے چھپنے کیلئے دو مختلف فارموں پر بھیج دیا گيا۔ کسان بخوشی مدد کرنے کیلئے تیار تھے۔ ایک نے کہا کہ "اگر چہ ہمارے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں پھر بھی ہم زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔" میں 1943 کے شروع میں سوئزرلنڈ بھاگ گئی۔
جنگ کے بعد ہین سوئزرلینڈ کے مختلف شہروں میں رہیں۔ 1945 میں اُنہوں نے میکس لئیبمین سے شادی کی اور تین سال بعد وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ نقل مکانی کر کے امریکہ چلی آئیں۔
آئٹم دیکھیںبیلا سونوویک ميں رہنے والے ایک یہودی خاندان کے چار بچوں ميں سب سے بڑی تھیں۔ اُن کے والد ایک بُنائی کی فیکٹری کے مالک تھے۔ جب 1939 میں جرمنوں نے پولینڈ پر حملہ کیا تو انہوں نے فیکٹری پر قبضہ کرلیا۔ خاندان کا فرنیچرایک جرمن عورت کو دے دیا گیا۔ بیلا کو 1941 میں سوسنوویک یہودی بستی کی ایک فیکٹری میں کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ 1942 میں اس خاندان کو بیڈزن یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا گیا۔ 1943 میں بیلا کو گراس روزن کے گرائبن نامی ایک ذیلی کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا اور 1944 میں برگن۔بیلسن بھیج دیا گیا۔ انھیں اپریل 1945 میں آزاد کرایا گیا، اور وہ 1946 میں ہجرت کر کے ریاستہائے متحدہ امریکہ آ گئیں۔
آئٹم دیکھیںدوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اُن کی والدہ اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کر لیا۔ اُنہیں ہلاک کردیا گیا۔ اُنہیں ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا لیکن وہ فرار ہو کر یہودی بستی میں اپنے والد کے پاس واپس پہنچ گئے۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانیک میں بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد چل بسے۔ بعد میں ابراھیم کو سکارزسکو، بوخن والڈ، شلیبن، بیسینجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جرمنوں نے جب کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںبین چار بچوں میں ایک تھا جو ایک مذہبی یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ جرمنی نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ وارسا پر جرمن قبضے کے بعد بین نے وہاں سے فرار کے بعد سوویت مقبوضہ مشرقی پولنڈ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم جلد ہی اُنہوں نے اپنے خاندان کی طرف پھر وارسا واپسی کا فیصلہ کیا۔ اُن کا خاندان اُس وقت وارسا کی یہودی بستی میں رہتا تھا۔ بین کو یہودی بستی کے باہر کام پر لگا دیا گيا اور اس نے لوگوں کو یہودی بستی سے باہر اسمگل کرنے میں مدد کی-- جس میں ایک یہودی مزاحمت تنظیم کی رکن ولادکا (فجیلے) پیلٹل بھی شامل تھی جو بعد میں اس کی بیوی بنی۔ بعد میں وہ یہودی بستی سے باہر رو پوش ہو گيا اور اپنے آپ کو پولینڈ کا ایک غیریہودی باشندہ ظاہر کرنے لگا۔ 1943 میں رونما ہونے والی وارسا یہودی بستی کی بغاومت میں بین نے ایک خفیہ تنظیم کے کارکنوں کے ساتھ کام کیا تاکہ وہ بستی کے لڑنے والوں کو بچا سکے۔ وہ اُنہیں گندے نالوں کے ذریعہ باہر لاتے اور وارسا کے "آرین" حصہ میں ان کو چھپاتے۔ بغاوت کے بعد بین اپنے آپ کو غیریہودی ظاہر کرتا ہوا وارسا سے بچ کر نکل گيا۔ آزادی کے بعد وہ دوبارہ اپنے والد، والدہ اور اپنی چھوٹی بہن سے جا ملا۔
آئٹم دیکھیںپولینڈ کے ایک فوجی سموئل ایک فوجی کارروائی کے دوران زخمی ہو گئے اور جرمنی نے اُنہیں جنگی قیدی بنا لیا۔ جنگ کے دوران دوسرے قیدیوں سمیت اُن کے ساتھ بہت ہی برا سلوک برتا گيا۔ جن کیمپوں میں اُنہیں رکھا گیا ان میں لوبلن۔ لیپووا بھی شامل تھا جہاں وہ جبری مشقت پر معمور اُن قیدیوں میں شامل تھے جنہیں 1942 میں مجدانیک حراستی کیمپ کی تعمیر میں استعمال کیا۔ وہ جرمنوں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور اُنہوں نے جنگ کا باقی عرصہ ایک مسلح مزاحمتی گروپ کے لیڈر کے طور پر گزارا۔
آئٹم دیکھیںھینی کے خاندان کا ایک فوٹوگرافی کا اسٹوڈیو تھا۔ اکتوبر 1940 میں اُنہیں اور اُن کے خاندان کے ارکان کو جنوبی فرانس میں گرس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ ستمبر 1941 میں چلڈرنز ایڈ سوسائٹی (او۔ ایس۔ ای) نے ھینی کو بچایا اور وہ لی چیمبون ۔ سر ۔ لگنون میں بچوں کے ایک رہائشی مرکز میں چھپ گئیں۔ اُن کی والدہ آشوٹز میں انتقال کر گئیں۔ 1943 میں ھینی نے جعلی کاغذات حاصل کئے اور سرحد پار کر کے سوٹزرلینڈ پہنچ گئیں۔ اُنہوں نے 1945 میں جنیوا میں شادی کر لی۔ 1946 میں اُن کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور 1948 میں وہ امریکہ اُن بسیں۔
آئٹم دیکھیںمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہودی والدین کی اکلوتی اولاد لیلیانا پولنڈ کے دارالحکومت میں عیسائیوں اور یہودیوں کی ملی جلی آبادی میں پلی بڑھیں۔ اُن کے والد جیولری کا کاروبار کرتے تھے اور وہ پولش فوج میں ریزرو افسر بھی تھے۔ اُن کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ لیلیان کا خواب تھا کہ وہ سربون جائیں اور پولنڈ کی دوسری خاتون ضلعی وکیل بنیں۔
1933-39: اسکول جانے کا سب سے خراب پہلو یہ تھا کہ مجھے"غلیظ یہودی" کے الفاظ سے پکارا جاتا۔ لہذا میں نے ایک مشہور کیتھولک ہائی اسکول میں داخلے کی درخواست دی جہاں مجھے ہفتے کے روز کی کلاسوں سے مستثنٰی قرار دے دیا گیا۔ تاہم دوسرے یہودی طالب علموں کی طرح مجھے الگ بٹھایا گیا اور ہال میں اور سیڑھیوں پر اکثر دھکے دئے جاتے۔ چند ہفتوں کے بعد میں نے یہ اسکول چھوڑ دیا اور ایک یہودی ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ میں اِس اسکول میں اُس وقت تک رہی جب ستمبر 1939 میں جرمن قابض فوجوں نے اسے بند کر دیا۔
1940-44: یہودیوں کو گھیٹو یعنی یہودی بستی میں جبری طور پر لائے جانے کے بعد مجھے ٹوبنز فیکٹری میں ایک جبری مزدور بنا دیا گیا۔ اپریل 1943 تک میرے خاندان کو ہلاک کیا جا چکا تھا اور بستی میں بغاوت کی آگ بھڑک چکی تھی۔ میں اپنے کارخانے میں بھوکی پڑی رہی۔ بالآخر 8 مئی کو جرمن ہمیں لینے آ گئے۔ شدید غصے کی حالت میں میں نے ایک قینچی اُٹھا لی لیکن قبل اس کے کہ میں کچھ کر پاتی ایک جرمن فوجی نے اپنی رائفل کا بٹ میرے سر پر دے مارا۔ میں نے خود کو بچانے کیلئے اپنا بازو اوپر اٹھایا لیکن اُس نے مجھے بار بار مارنا شروع کر دیا حتٰی کہ میں بے ہوش ہو گئی۔ جب میں اگلے روز اُٹھی تو میں نے خود کو جانوروں سے بھری ہوئی ایک تاریک گاڑی میں پایا۔
لیلیان مجدانک اور اسکارزسکو۔ کامئینا کیمپوں میں ایک جبری مزدور کے طور پر زندہ رہیں۔ اُنہیں 18 جنوری 1945 کو چنٹوکووا میں آزاد کرا لیا گیا۔ وہ 1950 میں نقل مکانی کر کے امریکہ چلی آئیں۔
آئٹم دیکھیںگیڈ برلن میں پلے بڑھے۔ اُن کے والد آسٹریا سے آ کر یہاں بسنے والے ایک یہودی تارک وطن تھے۔ گیڈ کی والدہ نے اپنا مذہب تبدیل کر کے یہودیت کو قبول کرلیا تھا۔ بیک خاندان برلن کے ایک غریب علاقے میں رہتا تھا جہاں کی بیشتر آبادی مشرقی یورپ سے آنے والے تارکین وطن پر مشتمل تھی۔ جب گیڈ اور اُن کی جڑواں بہن کی عمر 5 سال تھی تو بیک خاندان برلن کے ضلع وائسین سی میں منتقل ہوگيا جہاں گیڈ پرائمری اسکول میں داخل ہو گئے۔
1933-39: جب نازی اقتدار میں آئے تو میں صرف 10 سال کا تھا۔ میرے اسکول میں یہودی بچوں کی تعداد بہت کم تھی اور اُن میں سے ایک ہونے کے سبب مجھے سام دشمنی کا نشانہ بننا پڑتا۔ "کیا میں گیڈ کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے کہیں اور بیٹھ سکتا ہوں؟ اُس کے یہودی پاؤں انتہائی بدبودار ہیں۔" 1934 میں میرے والدین نے مجھے ایک یہودی اسکول میں داخل کردیا لیکن مجھے 12 سال کی عمر میں یہ اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ میرے والدین مزید تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ مجھے ایک دوکان میں بطور معاون نوکری مل گئی۔
1940-44: کیونکہ میں ایک مخلوط یعنی مشلنج جوڑے کا بچہ تھا اِس لئے مجھے اُس طرح مشرقی علاقوں کی طرف جلاوطن نہیں کیا گیا جیسے دیگر یہودیوں کو کیا گیا تھا۔ میں برلن میں ہی رہا جہاں میں زیر زمین تحریک میں شامل ہوگیا جہاں میں یہودیوں کو سوئزرلینڈ بھاگنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ ہم جنس پرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنے جاننے والے قابل اعتماد غیر یہودی ہم جنس پرستوں کی مدد سے خوراک اور چھپنے کی جگہیں مہیا کر سکتا تھا۔ 1945 کے شروع میں نازی خفیہ پولس گسٹاپو کے ایک یہودی جاسوس نے مجھے اور میرے بہت سے زیرزمین دوستوں کو دھوکا دیا۔ مجھے برلن کے ایک یہودی عبوری کیمپ میں قید کردیا گيا۔
جنگ کے بعد گیڈ نے بچ جانے والے یہودیوں کی فلسطین امیگریشن کو منظم کرنے میں مدد کی۔ 1947 میں وہ فلسطین چلے گئے اور پھر 1979 میں برلن لوٹ آئے۔
آئٹم دیکھیںارنسٹ تجارتی شہر بریسلو کے ایک یہودی خاندان کے تین بچوں میں سے ایک تھے۔ یہ شہر جرمنی کی سب سے بڑی یہودی آبادیوں میں سے ایک کا مسکن تھا۔ ارنسٹ کے والد پہلی جنگ عظیم میں حصہ لے چکے تھے اور اُن کا ایک کارخانہ تھا جو متزاہ بناتا تھا۔ خمیر کے بغیر بننے والی یہ خاص ڈبل روٹی یہودی تعطیل پاس اوور کے دوران تیار کی جاتی تھی۔ 1933 میں جب ہٹلر نے اقتدار سنبھالا تو ارنسٹ کی عمر 12 برس تھی۔
1933-39: اسکول میں اکثر میں مشکل میں پڑ جاتا کیونکہ لوگ مجھے گالیاں دیتے۔ "مسیح کا قاتل" اور "تمہارا باپ پاس اوور پر عیسائی بچوں کو ہلاک کرتا ہے" جیسے طنزیہ جملے روز کا معمول تھے۔ بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ نازیوں کی سیاسی شہرت جلد ختم ہو جائے گی لیکن 1935 تک اُن کے قوانین کڑے ہوتے گئے۔ ایسے اشتہار سامنے آئے جن پر تحریر تھا "یہودیوں کیلئے ممانعت ہے"۔ 1938میں کرسٹل ناخٹ کے دوران ہمارے سناگاگ کو نذر آتش کیا گیا تو ہم نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں جرمنی سے بھاگ نکلنا ہوگا۔ اب چونکہ ہمارا خاندان صرف دو ہی ٹکٹیں حاصل کر سکا، میں اور میری والدہ ایشیا کیلئے ایک جہاز پر سوار ہو گئےاور ہمارا خاندان پیچھے رہ گیا۔
1940-44: میں جاپان کے زیر کنٹرول شنگھائی میں پہنچا۔ یہ واحد جگہ تھی جہاں پناہ گزینوں کو ویزا درکار نہیں تھا۔ برطانوی فوج کی شنگھائی رضاکار فورس کیلئے رضاکارانہ طور پر ٹرک چلاتے ہوئے مجھے کھانا مل جاتا اور یوں دوسرے کئی پناہ گزینوں کے مقابلے میں میری حالت بہتر تھی۔ دسمبر 1941 میں پرل ہاربر کے واقعے کے بعد شہر کے پناہ گزینوں کی حالت بگڑ گئی۔ پناہ گزینوں کی بقا کیلئے اہم امریکی امدادی فنڈ شنگھائی تک نہ پہنچ سکتے تھے۔ 1943 میں جرمنی کی طرف سے دباؤ کے تحت جاپانیوں نے ایک گھیٹو یعنی یہودی بستی قائم کر دی۔
ارنسٹ نے دو برس شنگھائی گھیٹو میں گزارے جس کے بعد 1945 میں شہر کو آزاد کرا لیا گیا۔ جنگ کے بعد ارنسٹ نے چین کے شہر نان کنگ میں کئی برس تک امریکی فضائیہ کیلئے کام کیا اور نعد میں ترک وطن کر کے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.