کلوڈے پیرس میں ایک کیتھلک خاندان میں پیدا ہوئے جہاں وہ پانچ بچوں میں سے ایک تھے۔ اُن کے والد ایک ڈاکٹر تھے اور وہ میڈیکل کلینک اور لبارٹری کے مالک تھے جو بہت اچھا کاروبار کر رہے تھے۔ کلوڈے کے والد نے اُن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ان کی پریکٹس میں شامل ہو جائیں۔ لیکن کلاڈے کو وکیل بننے میں زیادہ دلچسپی تھی۔
1933-39 : میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1936 میں میں وکالت پڑھنے کیلئے یونیورسٹی میں داخل ہو گیا۔ 1939 کے وسط تک فرانس کے خلاف جرمن خطرہ بڑھ گیا اور 3 ستمبر، 1939 کو فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ میں جانتا تھا کہ میرے ملک کا نازیوں کے خلاف جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اکتوبر میں مجھے فرانسیسی فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ بنیادی تربیت کے بعد مجھے کارپورل کے طور پر ترقی دے دی گئی اور مجھے ایک ٹینک ڈویژن میں تعینات کر دیا گیا جو پیرس کے جنوب مشرقی حصے میں موجود تھا۔
1940-44 : جرمن فوج کے فرانس پر حملے کے چھ ہفتے بعد مجھے جرمن فوج نے پکڑ لیا۔ دوسرے جنگی قیدیوں کی طرح مجھے بھی جرمن سلطنت کیلئے جبری مشقت پر مامور کر دیا گیا۔ ایک محافظ کو قتل کرنے کی دھمکی دینے کی سزا کے طور پر مجھے ایک ایسے ہسپتال میں کام کرنے پر لگا دیا گیا جہاں نازی ڈاکٹر "طبی تجربات" کر رہے تھے۔ میرے سامنے ڈاکٹروں نے مردوں کی نس بندی کی اور جب انہوں نے قیدیوں کی انگلیاں ایک پریس میں کچل دیں تاکہ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا مطالعہ کیا جا سکے۔ بہت سے قیدی ان تجربات کے دوران ہلاک ہو گئے۔ ایک عورت کی بھووں کو کھول کر سی دیا گیا تاکہ وہ خود شیشے میں دیکھ سکے کہ اس کی دونوں چھاتیاں کاٹ دی گئی ہیں۔
چار برس تک قیدی رہنے کے بعد کلوڈے کو فروری 1944 کو قیدیوں کے تبادلے کے ایک پروگرام کے تحت فرانس بھجوا دیا گیا۔ جنگ کے اختتام تک اُنہوں نے فرانس کی خفیہ تنظیم کی طرف سے لڑائی میں حصہ لیا۔
آئٹم دیکھیںایڈولف السیس میں ایک کیتھلک خاندان میں پیدا ہوئے۔ السیس اُس وقت جرمن قبضے میں تھا۔ 12 برس کی عمر میں ایڈولف یتیم ہو گئے۔ اُن کی پرورش ان کے چچا نے کی جنہوں نے اُنہیں ملھاؤس کے ایک آرٹ اسکول میں بھیج دیا۔ وہاں اُنہوں نے ڈیزائن کے مضمون میں مہارت حاصل کی۔ اُنہوں نے السیس کے جنوبی علاقے میں واقع ایک گاؤں ھسیرین۔ ویسرلینگ میں شادی کر لی اور 1930 میں اس جوڑے کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی۔ 1930 میں آرنلڈ خاندان قریبی شہر ملھاؤس میں جا کر آباد ہو گیا۔
1933-39 : میں نے ملھاؤس میں فرانس کی سب سے بڑی پرنٹنگ فیکٹری میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ جب میں گھر پر یا فیکٹری میں کام نہیں کر رہا ہوتا تو میں بائبل پڑھتا یا کلاسیکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا۔ کیتھلک چرچ سے مایوس ہونے کے بعد میں اور میری بیوی نے یہووا کا گواہ بننے کا فیصلہ کیا۔ فرانس کے نظام کے مطابق ہم کسی بھی نئے مذہب کو اپنانے کیلئے آزاد تھے۔
1940-44 : جرمنوں نے 1940 میں ملھاؤس پر قبضہ کر لیا۔ 4 ستمبر، 1941 کو جب میں فیکٹری میں تھا، مجھے گرفتار کر لیا گیا کیونکہ میں یہووا کا گواہ تھا۔ مجھے ملھاؤس میں دو ماہ تک قید رکھا گیا۔ مجھے یکم جنوری کو ڈاخاؤ حراستی کیمپ بھیج دیا گیا جہاں مجھے ایس ایس کے اہلکاروں نے مارا پیٹا اور مجھ پر ملیریا کیلئے طبی تجربات کئے گئے۔ میری سالی میرے لئے کچھ یہووا کے گواہان سے متعلق تحریریں اسمگل کرنے میں کامیاب ہو گئی جو بسکٹوں میں چھپا کر اسمگل کی گئیں۔ ستمبر 1944 میں مجھے ماؤٹھاؤسن حراستی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔
ایڈولف کو مئی 1945 میں ماؤٹ ھاؤسن کے ایک ذیلی کیمپ ایبینسی میں آزاد کر لیا گیا۔ جنگ کے بعد اُنہیں واپس فرانس لایا گیا جہاں وہ اپنے خاندان سے دوبارہ ملے۔
آئٹم دیکھیںروتھ موراوسکا اوسٹراوا میں پلی بڑھیں۔ یہ شہر موراویا علاقے میں واقع تھا اور یہاں چیکوسلواکیہ کی تیسری سب سے بڑی یہودی آبادی تھی۔ جب روتھ ابھی بچی ہی تھیں تو اُن کے والدین میں طلاق ہو گئی۔ وہ اور اُن کی بہن ایڈتھ اپنی دادی کے پاس چلی گئیں اور پھر بعد میں وہ اپنے چچا کے پاس چلی گئیں۔ تاہم اُنہوں نے اپنے والد کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھا۔ روتھ نے پیانو بجانے کی تربیت حاصل کی اور اُن کی خواہش تھی کہ وہ پراگ میں موسیقی کی اکادمی میں داخلہ لیں۔
1933-39 : مارچ 1939 میں بوھیمیا اور موراویا پر جرمن قبضہ ہو گیا اور اُنہیں جرمن ماتحت علاقہ قرار دے دیا گیا۔اُس سال موسم خزاں کے دوران شہر میں موجود کام کے قابل یہودی افراد کو جبری مشقت کیلئے رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔ روتھ کے والد بچ کر برنو میں اپنی بہن کے ہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے روتھ اور ایڈتھ کیلئے ایک چچی کے ہاں جانے کا انتظام کیا جو ویسکوو میں رہتی تھیں۔ ایک ماہ بعد اُنہوں نے اپنے بچوں کو بلا لیا اور ایک چیک کسان کو رقم ادا کر کے اپنے اور اپنی بیٹیوں کیلئے برنو کے نزدیک ایک کھیت میں کام کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔
1940-45 : روتھ کو 1942 میں تھیریسئن شٹٹ گھیٹو میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں اُنہوں نے شادی کر لی۔ ایک برس کے بعد جب وہ حاملہ تھیں، اُنہیں جلاوطن کر کے آشوٹز بھجوا دیا گیا۔ جب روتھ نے ایک بچی کو جنم دیا تو ایس ایس کے ڈاکٹروں نے حکم دیا کہ اُن کی چھاتیوں پر طبی تجربات کی خاطر رسی باندھ دی جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اُن کی بچی خوراک کے بغیر کب تک زندی رہ سکتی ہے۔ روتھ خفیہ طور پر روٹی کو پانی میں بھگو کر اپنی بچی کو کھلاتی رہیں لیکن اُن کی بچی کمزور ہو گئی اور اُس کا پیٹ بھوک کے باعث پھول گیا۔ کیمپ میں موجود ایک قیدی ڈاکٹر نے روتھ کو راضی کر لیا کہ بچی کو مورفین کا ٹیکہ لگا کر موت کی نیند سلا دیا جائے کیونکہ اُس کا زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
روتھ کو جرمنی کے شہر لیپزیگ کے نزدیک واقع ایک مزدور کیمپ میں امریکی فوجیوں نے آزاد کرا لیا۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے دوبارہ شادی کر لی اور وہ پراگ میں رہنے لگیں۔ اُنہوں نے 1949 میں اسرائیل ہجرت کر لی۔
آئٹم دیکھیںرینے، اُس کی جڑواں بہن رینیٹ اور اُن کے جرمن یہودی والدین پراگ میں رہتے تھے۔ ان جڑواں بہن بھائیوں کی پیدائش سے کچھ ہی دیر قبل رینے کے والدین نازی حکومت کی یہود مخالف پالیسیوں سے بچنے کی خاطر جرمنی کے شہر ڈریسڈن سے فرار ہو گئے تھے۔ چیکوسلواکیہ میں رہنے کی خاطر جرمنی چھوڑنے سے پہلے رینے کے والد ھربرٹ درآمد۔برآمد کے کاروبار میں کام کرتے تھے۔ اُس کی والدہ ایٹا ایک اکاؤنٹنٹ تھیں۔
1933-39 : ہمارا خاندان پراگ میں نمبر 22 ٹرالی لائن کے ساتھ ایک چھ منزلہ اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہتا تھا۔ وہاں میری بہن اور میں اپنے والدین کے بیڈروم میں ایک ہی پنگھوڑے میں رہتے تھے۔ وہاں ٹیرس سے باہر کا منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ رینیٹ اور میں میچنگ لباس پہنتے تھے اور ہمیشہ خوش لباس رہتے تھے۔ اکثر ہم سارا دن قریبی پارک میں کھیلا کرتے۔ مارچ 1933 میں جرمن فوج نے پراگ پر قبضہ کر لیا۔
1940-45 : میری عمر چھ برس ہونے سے فورا پہلے میرے خاندان کو تھیریسئن شٹٹ گھیٹو سے آشوٹز جلاوطن کر دیا گیا۔ میرے بازو پر نمبر 169061 ٹیٹو کر دیا گیا۔ وہاں مجھے میری بہن اور میری والدہ سے الگ کر دیا گیا اور مجھے بڑے لڑکوں کی بیرک میں رکھ دیا گیا۔ وہاں اکثر لڑکے جڑواں تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بعض اوقات مجھے ہسپتال لیجایا جاتا باوجود اس بات کے کہ میں بیمار نہیں تھا۔ ہر جگہ میری پیمائش لی جاتی اور ایکس رے کئے جاتے۔ سوویت اور پولش فوجیوں کو گولی مار کر باہر گڑھے میں پھینکا گیا تو ہم لڑکوں نے یہ منظر دیکھا۔
رینے اور اُس کی بہن زندہ بچ گئے اور 1950 میں وہ امریکہ میں ایک دوسرے سے مل گئے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ایک "مینگیلے جڑواں" جوڑے کی حیثیت سے اُنہیں طبی تجربات کیلئے استعمال کیا گیا۔
آئٹم دیکھیںرینیٹ، اُن کے جڑواں بھائي رینے اور ان کےجرمن یہودی والدین پراگ میں رہتے تھے۔ اِن جڑواں بچوں کے پیدا ہونے سے کچھ ہی پہلے رینیٹ کے والدین نازی حکومت کی یہودیوں کے خلاف پالیسیوں سے بچنے کی خاطر ڈریسڈن جرمنی سے بھاگ نکلے۔ چیکوسلواکیا میں رہنے کیلئے جرمنی چھوڑنے سے پہلے رینیٹ کے والد ہربرٹ امپورٹ اکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ اُن کی والدہ ایٹا اکاؤنٹنٹ تھیں۔
1933-39: ہمارا خاندان پراگ میں نمبر 22 ٹرالی لائن پر واقع ایک چھ منزلہ رہائشی عمارت میں رہتا تھا۔ لمبی عمودی سیڑھیاں ہمارے اپارٹمنٹ تک جاتی تھیں جہاں میرے بھائی رینے اور میں اپنے والدین کے سونے کے کمرے میں ایک ہی پالنے میں سوتے تھے۔ باہر صحن کی طرف ایک ٹیرس بھی تھا۔ رینے اور میں ایک جیسا لباس پہنتے تھے اور ہمیشہ اچھے کپڑوں میں ملبوس رہتے تھے۔ ہمارے بیشتر دن ایک قریبی پارک میں کھیلتے گزرتے۔ مارچ 1939 میں جرمن فوج نے پراگ پر قبضہ کرلیا۔
1940-45: میری عمر چھ برس ہونے سے کچھ پہلے ہمیں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی سے آشوٹز بھیج دیا گیا جہاں میرا نمبر 70917 تھا۔ مجھے میرے بھائی اور والدہ سے الگ کر کے ہسپتال بھیج دیا گيا جہاں میرا ناپ لیا گیا اور ایکسرے اتارے گئے۔ میری گردن سے خون بھی لیا گیا۔ ایک بار مجھے میز سے باندھ کر چھری سے کاٹا گیا۔ مجھے ایسے ٹیکے لگائے گئے جن سے مجھے قے ہوتی اور اسہال کی شکایت رہتی۔ ہسپتال میں ٹیکے لگنے کے بعد بیمار ہونے پر وہاں گارڈ پہنچ گئے تاکہ بیمار لوگوں کو مرنے کیلئے لے جائیں۔ میری دیکھ بھال کرنے والی نرس نے مجھے اپنی لمبی سکرٹ میں چھپا لیا اور میں اُس وقت تک خاموش رہی جب تک کہ گارڈ چلے نہیں گئے۔
رینیٹ اوراُس کے بھائی بچ گئے اور 1950 میں دوبارہ امریکہ میں اکٹھے ہوگئے۔ اُنہیں یہ پتہ چلا کہ "مینگیلے جڑواں" ہونے کی وجہ سے اُنہیں طبی تجربات کیلئے استعمال کیا گیا۔
آئٹم دیکھیںآئرین اور اُس کا جڑواں بھائی رین، رینیٹ اور رین گٹ مین کے نام سے پیدا ہوئے۔ ان جڑواں بچوں کی پیدائش کے تھوڑے ہی دنوں بعد یہ خاندان پراگ چلا گیا جہاں یہ لوگ اُس وقت رہائش پزیر ہوئے جب جرمنی نے بوہیمیا اور موراویا پر مارچ 1939 میں قبضہ کیا۔ کچھ مہینوں کے بعد فوجی وردی میں ملبوس جرمنوں نے ان کے والد کو گرفتار کر لیا۔ کئی دہائیوں کے بعد رین اور آئرین کو یہ معلوم ہوا کہ انکے والد کو آشوٹز کیمپ میں دسمبر 1941 میں قتل کردیا گيا تھا۔ رین، آئرین اور اُن کی والدہ کو تھیریسین شٹٹ کی یہودی بستی میں اور پھر آشوٹز کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ آشوٹز کیمپ میں دونوں جڑواں بچوں کو الگ کر دیا گیا اور ان پر طبی تجربات کئے گئے۔ آئرین اور رین آشوٹز کیمپ سے آزاد ہونے کے بعد کچھ وقت تک الگ رہے۔ بچوں کو بچانے والی جماعت ریسکیو چلڈرن آئرن کو 1947 میں امریکہ لے آئی جہاں وہ 1950 میں رین سے دوبارہ ملی۔
آئٹم دیکھیںرینے اور اُس کی جڑواں بہن آئرین رینے اور ریناٹے گٹمین کے نام سے پیدا ہوئے۔ ان جڑواں بہن بھائیوں کی پیدائش کے کچھ ہی دیر بعد یہ خاندان پراگ منتقل ہو گیا جہاں وہ 1939 میں بوہیمیا اور موراویہ پر جرمنوں کے قبضے کے دوران رہ رہے تھے۔ کچھ مہینے بعد یونیفارم میں ملبوس جرمنوں نے اُن کے والد کو گرفتار کر لیا۔ کئی دہائیوں کے بعد رینے اور آئرین کو علم ہوا کہ اُن کے والد کو دسمبر 1941 میں آشوٹز کیمپ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہاں ان جڑواں بہن بھائیوں کو الگ کر دیا گیا اور اُن پر طبی تجربات کئے گئے۔ آئرین اور رینے آشوٹز میں اُن کی آزادی کے بعد کچھ عرصے تک الگ رہے۔ ریسکیو چلڈرن نامی گروپ آئرین کو 1947 میں امریکہ لے آیا جہاں اس کی ملاقات دوبارہ رینے سے 1950 میں ہو گئی۔
آئٹم دیکھیں
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.