1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیں1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیں1939 میں جب پولینڈ کی فوج میں چیم کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کر لیا اور اُنہیں جبری مشقت کیلئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم بعد میں پولینڈ واپس آ گئے۔ بالآخر اُنہیں سوبی بور کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد انتقال کر گئے۔ 1943 میں سوبی بور میں ہونے والی بغاوت کے دوران چیم نے ایک گارڈ کو قتل کردیا۔ وہ اپنی دوست سیلما کے ساتھ بچ کے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں اُنہوں نے سیلما سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو سوویت فوجیوں کے جون 1944 میں آزاد کرانے تک اپنے پاس چھپائے رکھا۔
آئٹم دیکھیںایستھر پولنڈ کے شہر چیلم میں ایک متوسط یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ دسمبر 1942 میں وہ ایک مزدور کیمپ سے مقبوضہ پولنڈ کی سوبی بور قتل گاہ میں جلاوطن کردی گئیں۔ سوبی بور کیمپ میں پہنچنے کے بعد ایستھر کو شیڈ چھانٹنے کے کام کے لئے منتخب کیا گيا۔ وہ اُن لوگوں کے کپڑے اور ان کے سامان کو چھانٹتی تھیں جو اس کیمپ میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ 1943 کے گرمیوں اور خزاں کے موسم کے دوران ایستھر سوبی بور کیمپ میں موجود قیدیوں کی ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گئیں جس نے بغاوت اور فرار کا منصوبہ بنایا۔ اِس گروپ کے لیڈروں میں لیون فیلڈ ہینڈلر اور اسکندر (ساشا) پیچرسکی شامل تھے۔ وہ بغاوت 14 اکتوبر 1943 کو واقع ہوئی۔ جرمن اور یوکرینین محافظوں نے ان قیدیوں پر فائر کھول دیا جو بڑے گیٹ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ لہذا انہوں نے کیمپ کے ارد گرد بچھی بارودی سرنگوں کے راستے سے نکلنے کی کوشش کی۔ تقریبا 300 لوگ بھاگ گئے۔ ان میں سے 100 سے زیادہ لوگ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اُنہیں گولی مار دی گئی۔ ایستھر ان لوگوں میں شامل تھیں جو بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںٹوماسز ازبیکا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ستمبر 1939 میں جنگ شروع ہونے کے بعد جرمنوں نے ازبیکا میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ ٹوماسز کے گیریج میں کام کرنے کی وجہ سے وہ بستی میں ہونے والی پکڑ دھکڑ سے محفوظ رہے۔ 1942 میں اُنہوں نے جعلی کاغذات استعمال کرتے ہوئے ہنگری فرار ہونے کی کوشش کی۔ وہ پکڑے گئے مگر کسی نہ کسی طرح ازبیکا واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپریل 1943 میں اُنہیں اور اُن کے خاندان کو سوبی بور کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ ٹوماسز سوبی بورکی بغاوت کے دوران بچ کر بھاگ نکلے۔ وہ زیرِ زمین چلے گئے اور پولینڈ کی خفیہ تنظیم کیلئے کام کرتے رہے۔
آئٹم دیکھیںایستھر پولنڈ کے شہر چیلم میں ایک متوسط یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ دسمبر 1942 میں وہ ایک مزدور کیمپ سے مقبوضہ پولنڈ کی سوبی بور قتل گاہ میں جلاوطن کردی گئیں۔ سوبی بور کیمپ میں پہنچنے کے بعد ایستھر کو شیڈ چھانٹنے کے کام کے لئے منتخب کیا گيا۔ وہ اُن لوگوں کے کپڑے اور ان کے سامان کو چھانٹتی تھیں جو اس کیمپ میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ 1943 کے گرمیوں اور خزاں کے موسم کے دوران ایستھر سوبی بور کیمپ میں موجود قیدیوں کی ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گئیں جس نے بغاوت اور فرار کا منصوبہ بنایا۔ اِس گروپ کے لیڈروں میں لیون فیلڈ ہینڈلر اور اسکندر (ساشا) پیچرسکی شامل تھے۔ وہ بغاوت 14 اکتوبر 1943 کو واقع ہوئی۔ جرمن اور یوکرینین محافظوں نے ان قیدیوں پر فائر کھول دیا جو بڑے گیٹ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ لہذا انہوں نے کیمپ کے ارد گرد بچھی بارودی سرنگوں کے راستے سے نکلنے کی کوشش کی۔ تقریبا 300 لوگ بھاگ گئے۔ ان میں سے 100 سے زیادہ لوگ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اُنہیں گولی مار دی گئی۔ ایستھر ان لوگوں میں شامل تھیں جو بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںجیکب جرمنی کے شہر ایسن میں رہائش پذیر تھے جب ان کی ملاقات اور اس کے بعد ان کی شادی ارنا شومر سے ہوئی جو ان ہی کی طرح ایک مذہبی یہودی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے دو بچے تھے، میکس جس کی پیدائش 1923 میں ہوئی تھی اور ڈورا جس کی پیدائش 1925 میں ہوئی تھی۔ جیکب ایک سیلزمین تھے اور شام کو وہ طلباء کو عبرانی زبان کی تعلیم دیتے تھے۔
1933-39: جب ہٹلر اقتدار میں آیا، جیکب یہ معلوم کرنے کیلئے ایمسٹرڈیم گئے کہ وہاں منتقل ہو جانے کے کیا امکانات ہیں۔ تاہم ارنا اپنی اُن تین بہنوں کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں جو ایسن میں رہتی تھیں۔ اُن کی یہ بھی خیال تھا کہ اگر اُن کا خاندان جرمنی میں ہی رہتا ہے تو وہ زیادہ محفوظ رہے گا۔ نومبر 1938 میں ملک گیر پوگرومز کے بعد انگر خاندان بالآخر بھاگ کر نیدرلینڈ چلا گیا۔ ایسے پناہ گذینوں کی طرح جن کی جیب پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی، انگر خاندان تقسیم ہو کر رہ گیا۔ میکس اور ڈورا کو یہودی تنظیموں کی نگرانی میں دے دیا گیا۔
1940-44: چرمن افواج نے مئی 1940 میں نیدرلینڈ پر حملہ کر دیا۔ تین سال تک ارنا اور جیکب چھپتے چھپاتے رہے۔ 17 اپریل 1943 کو انہیں نیدرلینڈ کے ویسٹربورک کے ٹرانزٹ کیمپ میں بھیجا گیا اور اس کے سات دن بعد جلاوطن کر کے پولینڈ کے سوبیبور کے قتل گاہ والے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
جیکب کو 1943 میں سوبیوبر میں گیس دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کی عمر 72 سال تھی۔
آئٹم دیکھیںٹامس کے والدین یہودی تھے۔ اس کے والد رابرٹ کُلکا موراویا کے قصبے اولوماک کے ایک تاجر تھے۔ اس کی ماں ایلنا سکوٹیزکا موراویا کے دارالحکومت برنو سے تعلق رکھتی تھی جہاں وہ کُلاہ ساز یعنی عورتوں کے ہیٹ ڈیزائن کرنے والی خاتون تھی۔ یہ جوڑا تعلیم یافتہ تھا اور چیک اور جرمن دونوں زبانیں بولتا تھا۔ اُنہوں نے 1933 میں شادی کی اور رابرٹ کے آبائی شہر اولوماک میں آباد ہوگئے۔
1933-39: ٹامس اپنے والدین کی شادی کے ایک سال اور ایک دن کے بعد پیدا ہوا۔ جب ٹوماس 3 سال کا تھا تو اس کے دادا کا انتقال ہوگيا اور کُلکا خاندان برنو منتقل ہوگيا جو ٹامس کی والدہ کا آبائی شہر تھا۔ 15 مارچ 1939 کو ٹامس کی پانچویں سالگرہ سے چند ہفتے پہلے جرمنی نے برنو سمیت بوہیمیا اور موراویا پر قبضہ کرلیا۔
1940-42: 2 جنوری 1940 کو ٹامس اور اس کے والدین اور نانی کو جرمنوں نے اُن کے گھر سے باہر نکال دیا۔ ٹامس کے والد نے اِس اُمید میں برنو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خاندانی کاروبار کو بچا سکیں گے۔ ٹامس چونکہ یہودی تھا لہذا اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک سال کے بعد ٹامس کے والد کو اپنا کاروبار ایک جرمن شخص کے ہاتھ صرف 200 چیکوسلواکین کراؤن یعنی 10 ڈالر سے بھی کم میں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ 31 مارچ 1942 کو کُلکا خاندان کو ڈی پورٹ کر کے مغربی چیکوسلواکیا کی تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں منتقل کردیا گيا۔
9 مئی، 1942 کو ٹامس کو ڈی پورٹ کر کے سوبی بور قتل گاہ بھجوا دیا گیا جہاں اُسے گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 7 برس تھی۔
آئٹم دیکھیںایوا بریجٹ جنوب مشرقی جرمنی میں دریائے رھائن کے قریب واقع ریاست بیڈن کے دارالحکومت میں رہنے والے جرمن یہودی والدین کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس کے دوست اور ہم جماعت اس کو بریجٹ اور اس کا خاندان اس کو "برکس" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک لادینی گھرانے میں بڑی ہوئی اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے والد مقامی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد تھے۔
1933-39: 1933 میں نازی ایوا کے والد کو گھر سے گرفتار کر کے لے گئے کیونکہ وہ نازیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن تھے۔ دو مہنے بعد اس نے اپنے والد کو ایک کھلے ٹرک میں سڑکوں میں "گشت کرواتے" ہوئے دیکھا۔ ان کو حراستی کیمپ لے جاتے ہوئے سر عام ذلیل کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ایوا نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ اپریل 1934 میں جب اس کے والد کو مار دیا گا وہ اپنی والدہ کے ساتھ فرانس ہجرت کر گئی۔
1940-43: فرانسیسیوں نے جنگی قیدیوں کے کیمپ سے ایوا کو رہا کرایا مگر حالات اور بھی بدتر ہو گئے جب 1940 میں جرمنی نے فرانس کو شکست دی۔ 1941 میں ایوا کی بہن نے ایوا، اپنی والدہ اور اپنے لئے امریکہ کا ویزا اور بحری جہاز کے ٹکٹ حاصل کیے مگر ایوا کو نو مہینے کی حاملہ ہونے کی وجہ سے جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہيں ملی۔ اس کے بچے کے باپ نے ایوا کو چھوڑ دیا تھا۔ تنہا ایوا نے مرسیل میں اپنے بچے کو جنم دیا۔ جب ایوا اپنے ایک سالہ بیٹے کی دیکھ بھال نہیں کر سکی تو اس نے لموگس میں یہودی بچوں کی پناہ گاہ میں اسے چھوڑ دیا۔
جنوری 1943 میں جنوبی فرانس میں ایک راؤنڈ اپ کے دوران بریجٹ کو پکڑ لیا گیا اور سوبی بور میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں وہ انتقال کر گئی۔ اس کا بیٹا زندہ بچ گیا اور 1945 میں اسے فلسطین پہنچا دیا گیا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.