منتخب مواد
ٹیگ
اپنی دلچسپی کے موضوع تلاش کریں اور ان سے متعلق مواد کیلئے انسائیکلوپیڈیا میں ریسرچ کریں
تمام شناختی کارڈ
ہولوکاسٹ کے دوران ذاتی تجربات کے بارے میں مزید جاننے کیلئے شناختی کارڈ تلاش کریں
طلبا کے لئے تعلیمی ویب سائٹ
موضوعات کے مطابق ترتیب دیا گیا اس معلوماتی ویب سائیٹ میں تاریخی تصاویر، نقشوں، نمونوں، دستاویزات اور شہادت پر مبنی کلپس کے ذریعے ہولوکاسٹ کی عمومی صورت حال پیش کی گئی ہے۔
خاکے
تصاویر دیکھئیے اور ان خاکوں کے ذریعے انسائیکلوپیڈیا کا مواد تلاش کیجئیے
ضرور پڑھیں
:
ھانا چیکوسلواکیا کے دارالحکومت پراگ میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد دھات کا کام کرتے تھے اور تعمیرات کا کام کرنے والی کمپنیوں کے لئے پائپ، گٹر اور ٹوٹیاں بنایا کرتے تھے۔ اُن کی والدہ کی کمزوری کی وجہ سے ھانا کی پرورش ان کے والد اور دادی نے کی۔ اُنہوں نے پانچویں جماعت تک ایک یہودی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور پھر اس کے بعد ایک کاروباری اسکول میں داخلہ لیا۔
1933-39: 1933 میں، میں نے ہسپانوی تحقیقات کے دوران یہودیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں پڑھ کر اپنی دادی سے کہا تھا کہ "ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم بیسویں صدی میں چکوسلواکیا میں رہتے ہیں اور ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔" چھ سال بعد 15 مارچ 1939 کو یہودیوں نے یورپ پر قبضہ کرلیا۔ اس دن بہت سردی تھی اور برف بھی گر رہی تھی۔ میرے گھر سے قریب ایک میل دور جرمن فوجی شہر میں ٹینکوں اور ٹرکوں پر سوار اپنی بندوقوں کو گھروں کی چھتوں کی طرف رکھتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے۔
1940-44: جس وقت جرمن فوجی مجھے لینے آئے، میں اپنے اپارٹمنٹ میں "گریپس آف ریتھ" پڑھ رہی تھی۔ مجھے جلاوطن کر کے تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا۔ نازیوں نے تھیریسئن شٹٹ کو ایک جھوٹے موٹے مرکز کے طور پر استعمال کیا تاکہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ یہودیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔ جب جولائی 1944 میں ریڈ کراس والے آئے تو نازیوں نے جھوٹی دکانیں، ریستوران، بچوں کے لئے اسکول اور پھولوں کے باغات لگائے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ ہم "عام" سی زندگی بسر کر رہے ہيں۔ ہم نے معائنے کے راستوں پر گھروں کے سامنے کے حصوں کو رنگ کیا اور اس کے بدلے نازیوں نے ہمیں زیادہ کھانا دیا – ہر ایک کو ایک ایک ڈمپلنگ زیادہ ملی۔
ھانا کو 1944 میں جلاوطن کر کے آشوٹز بھیج دیا گیا۔ چند مہینے جرمنی اور چیکوسلواکیا میں نوکر کے طور پر کام کرنے کے بعد انہیں 5 مئی 1945 کو رہا کر دیا گیا جب ایس ایس کے گارڈز نے اس کے کام کے گروہ کو چھوڑ دیا۔
کارل بیلجیم کی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں رہنے والے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چھبیس سال کی عمر میں انہوں نے جوئینا فاکینسٹائن سے شادی کی اور وہ اپنے والد کے باڑے کے سامنے ایک گھر میں رہنے لگے۔ کارل اپنے گھر کی پہلی منزل پر ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور چلاتے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں تھی، مارگوٹ اور لورے۔
1933-39: میں اپنے گھر والوں کو بیلفیلڈ نامی ایک شہر میں لے آیا ہوں جہاں میں ایک یہودی ریلیف تنظیم کے لئے کام کر رہا ہوں۔ اس علاقے کی یہودی آبادی کے جرمنی چھوڑنے کی درخواستیں پچھلے نومبر سے بڑھ گئی ہیں، جب ایک رات میں نازیوں نے یہودی دکانوں کی کھڑکیاں توڑ دیں اور جرمنی بھر میں عبادت گاہیں جلائی تھیں۔ بدقسمتی سے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد پر پابندیاں عائد ہیں، لہذا صرف چند ہی پناہ گزينوں کو ویزا مل سکتا ہے۔
1940-44: ہمیں جلا وطن کر کے چکوسلواکیا میں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا ہے۔ ہمیں اس لئے ایک حراستی مرکز نہيں بھیجا گیا کیونکہ پہلی جنگ عظیم مجھے جرمن آئرن کراس ملا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہمیں ہمیشہ مرکز بھیجے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے اور ہم ہمیشہ بھوکے ہوتے ہيں۔ ہماری پندرہ سال کی بیٹی مارگوٹ کو ایک گروپ میں شامل کر لیا گیا ہے جو ہر روز یہودی بستی سے نکل کر ایک فارم پر کام کرنے جاتا ہے۔ کبھی کبھار وہ ہمارے لئے اپنے کپڑوں میں چھپا کر سبزیاں لاتی ہے۔
مئی 1944 میں کارل کھانے کا سامان چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے اور انہیں اور ان کے گھر والوں کو آشوٹز بھیج دیا گیا۔ وہاں مارگوٹ کے علاوہ سب ہی مارے گئے۔
ھائینز, وہ اسی نام سے پکارا جاتا تھا، جرمن دارالحکومت میں مذہبی یہودی والدین کے گھر پیدا ہوا۔ وہ اور اس کا بڑا بھائی کرٹ مذہبی اور سرکاری دونوں ہی اسکول جاتے تھے۔ جب وہ بہت چھوٹا تھا، اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کی والدہ ایک درزن تھیں اور ان کے لئے گزر بسر کرنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک عیسائی محلے میں رہتی تھیں
1933-39: جب نازی اسٹارم ٹروپر یہودیوں کے خون سے اپنی چھریوں کو رنگنے کی بات کرتے تھے، مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ لیکن ہمارے پاس برلن چھوڑنے کے لئے پیسے نہيں تھے۔ سن 1939 میں ہمیں دوسرے یہودیوں کے ساتھ جرمن تعمیراتی کمپنیوں کے لئے کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ہم میں سے زیادہ تر کاروباری اور پیشہ ور لوگ تھے، جنہيں محنت مشقت کی عادت نہيں تھی۔ ہم مٹی کھودتے تھے اور ہاتھ سے پتھر اٹھاتے تھے۔ راہگیر ہم پر ہنستے تھے اور اساتذہ اپنے طلبا کو لا کر دکھاتے تھے کہ یہودی کیسے لگتے تھے۔
1940-44: مارچ 1943 میں مجھے، میری ماں کو اور کرٹ کو جلاوطن کر کے تھیریسئن شٹٹ بھیج دیا گیا، جہاں بہت جلد ہمیں کیڑے کھانے لگے۔ ہمیں کھانے پینے کے خیالات ستانے لگے۔ ہمیں سوپ ایک بڑے بیرل سے دیا جاتا تھا، اور اسے ہلایا بھی نہيں جاتا تھا، اور اچھے حصے نیچے کی طرف رہ جاتے تھے۔ مجھے بالکل صحیح وقت پر جانا ہوتا تھا۔ اگر میں آگے ہوتا تو مجھے پانی والے حصے ملتے۔ اگر میں بہت پیچھے ہوتا مجھے یا تو کچھ نہيں ملتا تھا یا پانی جیسا سوپ ملتا جو ایک نئی بالٹی کے اوپر سے دیا جاتا۔
ھائینز کو آخرکار اپریل 1945 میں فلوسینبرگ کے قریب رہا کیا گیا اور وہ 1949 میں امریکہ چلا آیا۔ کرٹ جنگ میں بچ گیا لیکن ان کی ماں آشوٹز میں ختم ہو گئی۔
برتھا مشرقی پرشیا کے دارالحکومت میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کوئنیگزبرگ شہر کی کونسل میں کام کرتے تھے۔ سن 1887 میں برتھا کی شادی ھیوگو گوٹزچاک سے ہوئی اور دونوں شمالی جرمنی کے ایک قصبے شلاوے میں جا کر بس گئے۔ وہاں ھیوگو قصبے کی غلے کی مل کے مالک تھے۔ وہ دونوں اور ان کے چار بچے نہر کے پاس ایک گھر میں رہتے تھے، جس کے اطراف پھلوں کا ایک باغ اور ایک بڑا باغیچہ تھا۔
1933-39: میری بیٹی نینی اور میں برلن چلے گئے ہیں۔ ھیوگو کا 1934 میں انتقال ہو گیا تھا اور ہم شلاوے میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی سے ڈر گئے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ ایک بڑے شہر میں ہمیں کوئی نہیں پہچان سکے گا۔ لیکن نازیوں نے یہودیوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دیں۔ مجھے حال ہی میں اپنا زیور اور چاندی کا سامان رجسٹر کرانا پڑا۔ میری بیٹی گرٹروڈ نے اپنی تینوں بیٹیوں کو انگلینڈ بھیج دیا ہے۔ میں بھی جانا چاہتی ہوں لیکن ویزا ملنا مشکل ہے۔
1940-42: نینی اور مجھے جلاوطن کر کے چکوسلواکیا میں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا ہے جہاں ہمیں کسی گھر کی دوسری منزل پر ایک گندا، جوؤں سے بھرا ہوا کمرا ملا ہے۔ نینی بھوسے کی تھیلیاں اٹھاتی ہے جنہيں جلا کر ہم اپنا کمرہ گرم رکھتے ہيں۔ مجھے 1941 میں امریکہ جانے کا موقع ملا تھا لیکن میں نے نینی کے بغیر جانے سے انکار کر دیا۔ شلاوے میں گزرا ہوا وقت اب بس ایک یاد بن کر رہ گیا ہے۔
برتھا کا 23 نومبر سن 1942 میں تھیریسئن شٹٹ میں انتقال ہو گیا۔
نینی شمالی جرمنی کے ایک چھوٹے قصبے شلاوے میں رہائش پزیر یہودی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چار بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ اُس کے والد اِس قصبے کی فلور مِل کے مالک تھے۔ نینی کا عبرانی نام نوکا رکھا گیا۔ وہ اِس مِل کے وسیع علاقے میں موجود ایک گھر میں پلی بڑی جو پھلوں کے باغیچوں اور ایک وسیع و عریض باغ سے گھرا ہوا تھا۔ 1911 میں نینی نے آرتھر لیون سے شادی کرلی۔ اُنہوں نے ملکر اپنے دو بچوں لُڈوک اور اُرسلا کی پرورش کی۔
1933-39: میری بیوہ ماں اور میں برلن منتقل ہوگئے ہیں۔ ہم شلاوے میں سام دشمنی بڑھ جانے سے خوفزدہ تھے لہذا یہودی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اُمید تھی کہ ہم اس بڑے شہر میں کم نمایاں رہیں گے۔ ہم اپنی بہن کے گھر کی نچلی منزل میں رہتے ہیں۔ میری بہن نے ایک پروٹسٹنٹ سے شادی کر لی ہے اور اپنا مذھب تبدیل کرلیا ہے۔ ہمارے وہاں آباد ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جرمنوں نے یہودیوں کی نقل و حرکت محدود کر دی۔ لہذا ہم گھر سے باہر اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
1940-44: مجھے اور میری ماں کو ڈی پورٹ کر کے بوہیمیا کے تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں بھیج دیا گیا ہے۔ ہمیں رہنے کیلئے دوسری منزل پر ایک ایسا گھر دیا گیا ہے جو نہایت ہی گندا ہے اور یہاں بہت بھیڑ بھی ہے۔ پھر اِس میں کھٹمل اور جوویں بھی بہت ہیں۔ چولہا لکڑی کے برادے سے جلتا ہے ۔ میں ہمارے کمرے میں سب سے چھوٹی ہوں اور میری عمر 56 سال ہے۔ میں برادے کے تھیلے اپنی پیٹھ پر لاد کر لے جاتی ہوں۔ میں روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہوں۔ مجھے اب سنائی بھی کم دے رہا ہے اور چلنے کیلئے مجھے چھڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج علی الصبح مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں اُن لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں جنھیں کسی دوسرے کیمپ میں لے جایا جارہا ہے۔ میں جانا نہیں چاہتی مگر بے بس ہوں۔
نینی کو 15 مئی 1944 کو ڈی پورٹ کر کے آشوٹز بھجوا دیا گيا اور وہاں پہنچتے ہی اس کو زہریلی گیس سے مار دیا گيا۔ وہ 56 سال کی تھی۔
اینا, جس کے گھر والے اسے پیار سے این چین کہتے تھے، اس کے والدین غیر مذہبی جرمن یہودی تھے۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور اینا کی غریب ماں نے برخسل کے قصبے میں اس کی پرورش کی۔ اینا نے 1905 میں اپنے سے بڑی عمر کے ایک امیر آدمی سے شادی کی اور وہ ڈزلڈورف میں رہنے لگی جہاں اس کا شوہر ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور کا مینیجر تھا۔ 1933 میں ان کے دو بڑے بیٹے تھے۔
1933-39: نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد پفیفر خاندان کی پرسکون زندگی تباہ و برباد ہو گئی۔ نازیوں نے اینا کے بھائی کو گرفتار کر کے ایک حراستی مرکز میں بھیج دیا جہاں اسے مار دیا گیا۔ اینا کے سب سے بڑے بیٹے نے ایک ڈچ عورت سے شادی کر لی اور وہ نیدرلینڈ میں جا بسا۔ اپنے شوہر کے نوکری سے ہاتھ دھونے اور نومبر 1938 کے منظم قتل عام کے بعد پفیفر خاندان بھی نیدرلینڈ میں جا کر بس گیا۔ وہاں وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے اور بہو سے جا ملے۔
1940-44: اینا کے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا اور وہ ایمسٹرڈیم میں اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنا وقت گزارنے لگی۔ مئی 1940 میں جرمنوں نے نیدرلینڈ پر قبضہ کر لیا۔ یہودیوں کو رجسٹر کرنے کا حکم دے دیا گیا اور ان کے حقوق پر پابندیاں عائد ہو گئيں۔ دوسرے یہودیوں کی طرح اینا بھی اپنی تمام جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسے ایک سبز رنگ کا شناختی بیج پہنایا گیا اور اس کے ایک سال بعد اسے اس کے گھر والوں سے الگ کر دیا گیا اور ویسٹربورگ بھیج دیا گيا جو یہودیوں کا ایک ٹرانزٹ کیمپ تھا۔ چار مہینے کے بعد اسے جلاوطن کر کے چیکوسلواکیا میں تھیریسئن شٹٹ کی بستی میں بھیج دیا گیا۔
اکتوبر 9 سن 1944 میں اینا کو تھیریسئن شٹٹ سے جلاوطن کر کے آشوٹز بھیج دیا گيا جہاں دو دن بعد اسے گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ وہ 58 سال کی تھی۔
جان پیٹر کے والد ھائینز ایک جرمن یہودی پناہ گزین تھے جنھوں نے ہالینڈ کی ایک یہودی خاتون ہینرئیٹ ڈی لیو سے شادی کی تھی۔ نازی آمریت اور ایک حراستی کیمپ میں ھائینز کے چجا کے قتل سے خوفزدہ یہ جوڑا نقل مکانی کر کے نیدرلینڈ چلا آیا۔ ہینرئیٹ اُس وقت 9 ماہ کے حمل سے تھیں۔ اُنہوں نے ایمسٹرڈیم میں سکونت اختیار کر لی۔
1933-39: جان پیٹر اپنے والدین کے نیدرلینڈ پہنچنے کے فوراً بعد پیدا ہوا۔ جب اُس کا ننھا بھائی ٹامی پیدا ہوا وہ صرف 18 ماہ کا تھا۔ 1939 میں جان پیٹر کے دادا دای اور اس کے چچا بھی جرمنی سے پناہ گزینوں کی حیثیت سے اُن کے پاس نیدر لینڈ آ گئے۔ جان پیٹر اور اس کا بھائی ٹامی اپنی مادری زبان زبان کے طور پر ڈچ زبان بولتے ہوئے بڑے ہوئے اور انھوں نے دیہی علاقے میں واقع اپنی والدہ کے خاندانی گھر میں خاصا وقت اکٹھے گزارا۔
1940-44: جرمنوں نے مئی 1940 میں ایمسٹرڈیم پر قبضہ کرلیا۔ جرمن تسلط کے باوجود 6 سالہ جان پیٹر نے اپنی روز مرہ زندگي میں کوئي خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ پھر اُس کی نویں سالگرہ کے فوراً بعد جرمنوں نے اُس کی دادی کو ویسٹربورک نامی کیمپ میں بھیج دیا۔ چھ ماہ بعد جان پیٹر اور اُس کے خاندان کو بھی اُسی کیمپ میں بھیج دیا گیا لیکن اُن کی دادی وہاں موجود نہیں تھیں۔ سردیوں کے دوران فیفر خاندان کو ایک دور دراز کی یہودی بستی میں بھیج دیا گیا جسے تھیریسئین شٹٹ کہا جاتا تھا۔ وہاں جان پیٹر کو شدید سردی، خوف اور بھوک کا سامنا رہا۔
18 مئی 1944 کو جان پیٹر اپنے خاندان کے ساتھ آشوٹز لایا گیا۔ اُسے 11 جولائی 1944 کو گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 10 برس تھی۔
انگے برتھولڈ اور ریجائنا اوئربیخر کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ یہ مذہبی یہودی خاندان کپن ھائم میں رہتا تھا۔ کپن ھائم جنوب مغربی جرمنی میں بلیک فارسٹ کے قریب واقع ایک گاؤں تھا۔ اُن کے والد ٹیکسٹائل کے تاجر تھے۔ یہ خاندان ایک بہت بڑے گھر میں رہتا تھا جس میں 17 کمرے تھے اور گھر کے کام کاج کیلئے ملازم بھی موجود تھے۔
1933-39: 10 نومبر1938 کو غنڈوں نے ہمارے گھر کی تمام کھڑکیوں کو پتھراؤ کر کے توڑ دیا۔ اُسی روز پولیس نے میرے والد اور دادا کو گرفتار کر لیا۔ میری والدہ، میری دادی اور خود میں ایک شیڈ میں اُس وقت تک چھپے رہے جب تک خاموشی نہیں ہو گئی۔ جب ہم باہر نکلے تو یہودی مردوں کو ڈاخو کے حراستی کیمپ میں لے جایا جا چکا تھا۔ میرے والد اور دادا کو چند ہفتوں بعد واپس گھر آنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اُسی سال مئی میں میرے دادا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
1940-45: جب میری عمر سات برس تھی مجھے میرے والدین کے ساتھ چیکوسلواکیہ میں تھیریسئن شٹٹ گھیٹو منتقل کر دیا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے تمام چیزیں لے لی گئیں۔ صرف وہ کپڑے ہمارے پاس رہے جو ہم نے پہنے ہوئے تھے۔ میری گڑیا مارلین بھی میرے پاس رہی۔ کیمپ کے حالات بہت ہی خراب تھے۔ آلو بھی ہیروں کی طرح قیمتی تھے۔ میں زیادہ تر بھوکی، خوفزدہ اور بیمار رہی۔ میری آٹھویں سالگرہ کے موقع پر میرے والدین نے مجھے آلوؤں کا ایک چھوٹا سا کیک دیا جس میں چینی برائے نام ہی استعمال ہوئی تھی۔ میری نویں سالگرہ پر مجھے کپڑوں کے چیتھڑوں سے سلا ہوا میری گڑیا کا لباس ملا اور میری دسویں سا؛لگرہ پر میری والدہ نے تحفے کے طور پر ایک نظم لکھی۔
8 مئی 1945 کو انگے اور اُن کے والدین کو ٹھیریسئن شٹٹ گھیٹو سے آزاد کر دیا گیا جہاں اُنہوں نے تین برس گزارے تھے۔ مئی 1946 میں وہ ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.