چیم فرینکیئل
پیدا ہوا: 2 نومبر، 1927
گیبن, پولینڈ
چیم ایک مذہبی یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے سات بچوں میں تیسرا تھا۔ وہ وارسا کے قریب گیبن نامی ایک شہر میں رہتے تھے جہاں چیم کے والد ٹوپیاں بنانے کا کام کرتے تھے گیبن میں پولینڈ کا ایک پرانا عبادت خانہ تھا جسے 1710 میں تعمیر کیا گيا تھا اور جو لکڑی کا بنا ہوا تھا- گیبن کے زيادہ تر یہودیوں کی طرح چیم کے گھر والے بھی عبادت خانے کے قریب ہی رہتے تھے۔ نو افراد پر مشتمل یہ خاندان ایک تین منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔
1933-39: ستمبر 1939 میں میری بارہویں سالگرہ سے دو ماہ قبل جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ گیبن میں 10 افراد کو راستے پر ہی گولی مار دی گئی؛ ڈاکٹروں اور اساتذہ کو لے جایا گیا۔ جرمنی کے خلاف بولنے والے ایک پڑوسی کو حراست میں لیا گیا۔ کچھ ہفتوں کے بعد اس کے گھر والوں کو راکھ سے بھرا ایک ڈبہ دیا گیا۔ اس کے بعد جرمنوں نے یہودیوں کو دہشت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا؛ انہوں نے عبادت گاہ اور اس کے قریب واقع گھروں پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔
1940-45: جب میری عمر 14 سال کی تھی، میرے بھائیوں شمویل اور جیکب کے ساتھ مجھے بھی کئی جبری کیمپوں میں لے جایا گیا۔ کھانے پینے کی قلت تھی اور ہم کسی نہ کسی طرح کھانے پینے کا "انتظام" کر لیتے۔ کیمپوں کے باہر کام کرنے دوران ہم بھیک مانگتے تھے یا کچرے کے ڈھیر سے کچرا چنتے تھے۔ شمویل کھیتوں سے گوبھی چننے کے لئے رات کو کیمپ کی باڑھ کے نیچے سے نکل جاتا تھا۔ ایک دفعہ پانچ لڑکوں کو کھانے کا "انتظام" کرنے پر پھانسی دی گئی تھی لیکن ہم نہيں ڈرے۔ جیکب اور میں صرف ایک ہی چیز چاہتے تھے: جنگ کے بعد زندہ بچ نکلنا، روٹی کھانا، میز پر بیٹھنا اور پیٹ بھر کر کھانا کھانا۔
1943 میں چیم کو آشوٹر بھیج دیا گیا جہاں وہ 17 مہینے تک رہا۔ جرمنی تک جبری مارچ کے بعد اسے اپریل 1945 میں آزاد کرا لیا گیا۔ وہ 1949 میں ہجرت کر کے امریکہ چلا آیا۔