گٹلا زوبرمین
پیدا ہوا: 11 مارچ، 1917
سینڈومیئرز, پولینڈ
گٹلا مذہبی یہودی والدین کی چار بیٹیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ وہ سینڈومیئرز میں رہتے تھے جو وسٹولا دریا کے کنارے ایک قصبہ تھا جس میں کیتھلک لوگوں کی اکثریت تھی۔ اُن کے والد ٹاؤن ہال کے ساتھ کتابوں کی ایک چھوٹی سے دکان چلاتے تھے جس میں وہ اسکول کی کتابیں اور ناول بیچتے تھے۔ گٹلا پہلے پبلک اسکول جایا کرتی تھیں، اس کے بعد وہ لڑکیوں کے لئے قائم کئے جانے والے کیتھلک اسکول جانے لگیں۔ سردیوں میں گٹلا وسٹولا دریا پر اسکیٹنگ کیا کرتی تھیں۔
1933-39: 1937 میں میں کیٹوویچ چلی گئی جو پولینڈ اور جرمنی کی سرحد پر واقع ایک بڑا سا قصبہ تھا۔ وہاں میں نے ایک تجارتی کالج می داخلہ لیا اور اپنی بہن ہانا کے ساتھ رہنے لگی جو ایک دوا فروش تھی۔ اگست 1939 میں ہم نے سنا کہ جرمن فوج پولینڈ پر حملہ کرنے والی ہے۔ ہانا اور میں نے سینڈومیئرز واپس جانے کی ٹھانی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم وہاں زیادہ محفوظ رہيں گے۔ یکم ستمبر1939 کو جرمن افواج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ دو ہفتے بعد انہوں نے سینڈومیئرز پر قبضہ کر لیا۔
1940-44: پیونکی کے مشقت کے کیمپ میں ایک سال گزارنے کے بعد میں اور میرے والد فرار ہو کر وارسا چلے گئے۔ میری بہن آيرین کے ناک نقشے آرین افراد جیسے تھے اور وہ پولش زبان بھی اچھی طرح بول لیتی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو عیسیائی ظاہر کروا سکتی تھی۔ اس نے شہر سے نکلنے میں ہماری مدد کی۔ اس نے اس کے لئے ایک پولش آدمی کو پیسے دئے تھے۔ وارسا میں میں آئرین کے اپارٹمنٹ میں بند رہتی تھی اور وہ کام کرنے جاتی تھی۔ اپنے بالوں کو گہرا سنہرا رنگ کرنے کے بعد میں نے برتن دھو کر اپنا پیٹ پالا۔ میں نے جعلی شناختی دستاویزات بنوائیں اور کراس پہننے لگی۔ لیکن مجھے پہچان لیا گیا۔ گاڑی میں جاتے ہوئے ایک لڑکے نے میری طرف اشارہ کر کے مجھے "کائيک" کہا جو یہودیوں کے لئے کسی گالی سے کم نہيں ہوتا ہے۔ میں اس کے بعد اپارٹمنٹ سے دوبارہ باہر نہيں نکلی۔
گٹلا کو جلاوطن کر کے شٹٹہاف اور گراس روزن کیمپ بھیجا گیا۔ 1945 میں سوویت افواج نے اسے آزاد کرایا۔ اُن کی بہنیں، والدہ اور والد سب ہی زندہ بچ گئے۔