لیسا ایک دیندار یہودی خاندان کے تین بچوں میں سے ایک تھی۔ سن 1939 میں اس کے وطن پر جرمنی کے قبضے کے بعد لیسا اور اس کا خاندان پہلے اگستو پھر سلونم (سوویت مقبوضہ مشرقی پولینڈ) منتقل ہو گيا۔ سوویت یونین پر حملہ کے دوران جرمن فوجوں نے جون سن 1941 میں سلونم پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ سلونم میں جرمنوں نے ایک یہودی بستی قائم کی جو سن 1941 سے 1942 تک قائم رہی۔ آخر میں لیسا سلونم سے بچ کر بھاگ نکلی اور پہلے وہ گروڈنو پھر ویلنا گئی جہاں وہ مزاحمتی تحریک میں شامل ہو گئی۔ وہ ایک حامی جماعت میں شامل ہوئی جو نوروچ جنگل سے جرمنوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ سوویت فوجیوں نے اس علاقہ کو سن 1944 میں آزاد کرایا۔ ہالوکاسٹ میں زندہ بچنے والے ڈھائی لاکھ یہودیوں کی مشرقی یورپ سے فرار ہونے والی بریہا ("بچنا"، "بچ کر بھاگنا") تحریک میں شامل ایک رکن کی حیثیت سے وہ اور اس کے شوہر ایرن نے یورپ چھوڑنے کی کوشش کی۔ فلسطین میں داخل نہ ہو سکنے کے بعد وہ لوگ آخرکار امریکہ میں جا بسے۔
میں کیسے بیان کروں کہ جیسے ہی ہم پہاڑ سے اترے ہم نے کیا دیکھا؟ روبن ہڈ جیسا منظر تھا۔ لوگ بندوقیں اٹھا کر ادھر ادھر چل رہے تھے۔ گائے کے گوشت کے ٹکڑے لٹک رہے تھے۔ جھونپڑے، جن سے لوگ نکل کر باہر آ رہے تھے۔ لوگ چکی پیس رہے تھے۔ وہاں لوگوں کی بہت بڑي تعداد تھی۔ میں یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ خفیہ طور پر مزاحمت کرنے والے اس طریقے سے کام کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر کام کرتے ہونگے جہاں انہیں کوئی تلاش نہیں کر سکتا ہو گا۔ مجھے یہ جگہ بہت کھلی لگی۔ وہ مجھے واقعی بے حد کھلی جگہ لگی۔ ہمارا استقبال فوراً کیا گیا۔ ہم ایک یہوددی یونٹ تک پہنچے جسے "انتقام" کہا جاتا جاتا تھا۔ عبرانی زبان میں اس کو "نیکاما" کہتے ہیں۔اس یونٹ کے قائد کا نام جوزف گلازمن تھا۔ اس نے ہمیں پرجوش طریقے سے قبول کیا اور پھر فوراً ہی سب لوگ ہم سے جاننا چاہتے تھے کہ یہودی بستی سے نکلنے سے پہلے ہماری نظر کن لوگوں پر پڑی۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.