ایرن شہر سلونم کے ایک متوسط یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ دونوں عالمی جنگوں کے درمیان پولنڈ کا ایک حصہ رہا۔ اُن کے والدین ایک کپڑے کی دوکان کے مالک تھے۔ ایک ٹیکنکل اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایرن نے سلونم کے ایک قریبی چھوٹے سے قصبے میں موشن پکچرز کے پروجیکشنسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ سوویت فوج نے سلونم پر ستمبر 1939 میں قبضہ کرلیا۔ جون 1941 میں سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ایرن سلونم واپس لوٹ آئے۔ جرمنوں نے جلد ہی سلونم پر قبضہ کرلیا اور بعد میں یہودیوں کو ایک یہودی بستی میں ڈال دیا۔ ایرن کو گولہ بارود تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں کام پر مجبور کیا گيا اور وہ یہودی بستی کے اندر ہتھیار اسمگل کرنے میں کامیاب رہے۔ جرمنوں کی طرف سے یہودی بستی کو تباہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنے خاندان کی وہاں سے فرار ہونے میں مدد کی۔ اُس کے بعد ایرن نے گرفتار ہونے تک گروڈنو میں کام کیا۔ گروڈنو سے جلاوطنی کے دوران ایرن جانوروں کی گاڑی سے کود گئے۔ آخر کار وہ گروڈنو سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ویلنا کی ایک خفیہ تنظیم میں شامل ہو گئے۔ جنگ کے بعد وہ اور اُن کی بیگم (جن سے وہ سلونم یہودی بستی میں ملے تھے) امریکہ ہجرت کر گئے اور اُنہوں نے شکاگو میں سکونت اختیار کر لی۔
بعد میں ہم تقریبا نو یا دس بجے کے لگ بھگ سونے کے لئے تیار تھے۔ اِس کیلئے زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔۔ اِس سے پہلے کہ مجھے نیند آتی۔۔ ہم نے چھت پر پٹاخوں کی آواز سنی۔ پہلی چیز جو ہم نے سنی وہ صحن میں گولی چلنے کی آواز تھی۔ میری زندگی اس چھوٹے سے صحن میں ہی گذری تھی۔ گولیاں چل رہی تھیں۔۔ ایک کے بعد ایک۔ پھر ان میں تیزی آگئی۔ اور یہاں میں چھت ٹوٹنے کی آواز سن رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا "خدا کا شکر ہے کہ بارش ہورہی ہے"۔ لیکن وہ بارش نہیں تھی۔ بلکہ گھر میں آگ لگی ہوئی تھی۔ گھر لکٹری کا تھا لہذا آگ تیزی سے چاروں طرف پھیل گئی۔ ہم گھر سے باہر نکلنے کے لئے مجبور تھے۔۔۔ رات کے ایک یا دو بجے تھے۔ چاندنی رات تھی۔ لہذا جو کچھ بھی ہورہا تھا آپ اس کو دیکھ سکتے تھے۔ ہم کسی نہ کسی طرح سر نیچا کئے ہوئے گھر سے باہر نکل آئے اور ہم صحن میں تھے اور یہاں ہم جرمن اور روسی فوجیوں کے مابین جاری جنگ کے درمیان تھے۔ جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ روسی فوجیوں کا ایک گروپ وہاں رہ گیا تھا۔ محاز دور تھا، بہت دور۔ لیکن وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ روسی فوجی نہیں جانتے تھے کہ یہاں مزید کوئی محاز نہیں ہے اور بہرحال وہاں لڑائی جاری تھی۔ ہم آدھی رات کو باہر نکل آئے اور جرمن فوجیوں نے ہمیں فوری طور پرگرفتار کرلیا۔ اور پھر ان لوگوں نے ہمیں ایک جگہ رکھا۔ ہم لوگ تقریبا 15 سے 18 مرد اورعورتیں تھے۔ ان لوگوں نے عورتوں کو ایک طرف کیا اور مردوں سے کہا کہ اگر ان میں سے کسی نے ٹوپی پہنی ہوئی ہےتو وہ اس کو اتار دے۔ اور پھر جن لوگوں کے سر پر کوئی بال نہیں تھے اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کر کے گولیوں سے بھون دیا۔ ان لوگوں نے ان کو ہمارے پیچھے کے صحن میں قتل کردیا۔ میں نے اپنا گھر کھودیا۔ میں ایک کم عمر شخص تھا اورشاید آٹھ یا دس لوگوں کا اجتماعی قتل دیکھ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ لوگ مجھے نہیں لے گئے کیونکہ میرے سر پر بال تھے۔ میں فوج میں نہیں تھا۔ وہ لوگ گنجے لوگوں کو ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ انھوں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ روسی فوجی ہوں [جنھوں نے] اپنے کپڑے تبدیل کرلئے ہوں۔ لہذا وہ لوگ ان لوگوں کو لے گئے۔۔۔ میرے والد کے سر پر کم بال تھے لیکن وہ بوڑھے نظر آ رہے تھے۔ اس لئے خوش قسمتی سے وہ لوگ انہیں نہیں لے گئے۔ لیکن میں وجہ جانتا ہوں کہ وہ لوگ مجھے کیوں نہیں لے گئے۔ ان لوگوں نے ان کو قتل کردیا اور ہمیں ایک اجتماعی قبر اپنے صحن میں کھودنی پڑی اور پھر ہم نے وہاں پڑے ہوئے لوگوں کی لاشوں کو اس اجتماعی قبر میں دفنا دیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.