شارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
میں جنگل میں یا پھر جنگلات میں کیسے زندگی گذارتی تھی۔ میں نہیں جانتی۔ لیکن یہ ایک حیرت انگیز بات ہے، جب کوئی بہت بھوکا اور بے حوصلہ ہو تو وہ نئے راستے تلاش کر لینے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ میں جب بھی یہ بات کہتی ہوں کہ میں نے کیڑے مکوڑے اور ہر وہ چیز کھائی جو میں منہ میں رکھ سکتی تھی تو مجھے یقین نہیں آتا۔ بعض اوقات میں بہت زیادہ بیمار بھی ہو جاتی تھی۔ وہاں کچھ جنگلی کھمبیاں بھی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ زہریلی تھیں۔ شاید وہ زہر سے بھری ہوئی تھیں۔ میں بیمار تھی۔ میرا پیٹ خراب تھا لیکن میں نے پھر بھی اس کو منھ میں رکھ لیا کیونکہ مجھے کچھ نہ کچھ چبانے کی ضرورت تھی۔ میں گدلے پانی کے جوہڑوں سے پانی پیتی تھی۔ برف۔ کوئی بھی چیز جس سے زندہ رہ سکوں۔ بعض اوقات میں تہہ خانوں میں چوری چھپے گھس جاتی تھی جو کسانوں نے آلو ذخیرہ کرنے کیلئے گاؤں کے باہر بنایا ہوا تھا۔ وہ چھپنے کے لئے ایک اچھی جگہ تھی کیونکہ وہ سردی میں تھوڑا گرم رہتے تھے۔ لیکن وہاں بڑے بڑے چوہے ہوتے تھے۔ اور یہ کہتے ہوئے مجھے بہت خراب لگ رہا ہے کہ میں نے کچے چوہے بھی کھائے۔ ہاں میں نے ان کو کھایا۔ بظاہر مجھے زندہ رہنے کی شدید خواہش تھی کیونکہ میں نے کچھ ایسی چیزیں کی تھیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے کچھ ایسی چیزیں کھائی تھیں جنہیں کوئی خواب میں بھی نہیں کھا سکتا۔ بہرحال میں بچ گئی۔ میں نہیں جانتی کہ کیوں۔ میں اپنے آپ سے پوچھتی رہتی ہوں۔ لیکن میں بچ گئی۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.