جرمنوں نے مارچ 1938 میں آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔ 1939 میں ہینس پہلے ہنگری اور پھر اٹلی فرار ہوئے۔ وہ اور ان کے والدین کئی شہروں میں قید رہے۔ ہینس کے والد بیمار ہو گئے اور 1940 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 1943 میں ہینس اور ان کی والدہ کو اٹلی سے یہودیوں کو پولینڈ جلاوطن کرنے کے منصوبے سے خبردار کیا گیا تھا۔ وہ مسلسل چھوٹے شہروں میں منتقل ہوتے رہے حتیٰ کہ اگست 1943 میں برطانیہ نے انھیں آزاد کرایا۔ ہینس 1945 تک اتحادیوں کے لیے مترجم کا کام کرتے رہے۔ اُس کے بعد وہ امریکی یہودی جوائنٹ ڈسٹریبیوشن کمیٹی کے لیے کام کرتے رہے اور یہودی تارکین وطن کی آبادکاری میں مدد کرتے رہے۔<
وہاں وہ تھا جسے [adonata [ph] کہتے تھے۔ یہ ایک اجتماع تھا جو دن میں ایک بار ہوتا تھا۔ معاف کیجئیے، ایک دن میں دو بار۔ میرا خیال ہے بس گنتی کے لیے۔ لیکن بس یہی تھا۔ بعد میں وہاں بہت سے لوگ تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ وہاں بہت زیادہ لوگ ہیں، اس قید والے گاؤں میں۔ ہم لوگ علیحدہ ہو گئے تھے۔ وہ لوگ جن کے نام کا آخری حصہ A سے K تک کے حروف سے شروع ہوتا تھا، انھیں بحیرہ ایڈریاٹک میں ٹورٹوریٹو نام کی جگہ پر بھیج دیا گیا۔ ہم لوگ وہیں رہے۔ یہ ایک تفریحی گاؤں تھا۔ ہم لوگ ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ میرا کمرہ میرے والد کے ساتھ تھا۔ ہم ٹیرس سے سمندر کو دیکھتے تھے۔ جب موسم اجازت دیتا تو ہم تیرنے کیلئے سمندر میں جاتے تھے۔ گاؤں سے ایک پولیس والا ہمارے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہ ہوٹل میں اکیلا پویس والا تھا۔ لیکن ہم صرف رات کے وقت اکٹھے ہوتے تھے۔ دن کے وقت ہم شہر میں مفت گھومتے تھے۔ ہمیں اجازت ملی کہ اگر ہم فلم دیکھنے جانا چاہیں تو جا سکتے تھے۔ ہمیں جیب خرچ ملتا تھا۔ ہمیں وہ رقم بھی ملتی تھی جو ہم نے کچن کے لیے جمع کی تھی۔ کچھ رضاکار کھانا بنانے والے تھے اور ہمیں دن میں تین وقت کھانا ملتا تھا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.