ھینی کوونو لیتھوانیا میں ایک متول خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اُنہوں نے اور اُن کے بھائی نے ایک نجی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ جون 1940 میں سوویت یونین نے لتھوانیا پر قبضہ کر لیا لیکن کوئی زیادہ تبدیلی کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ جون 1941 میں جرمنوں نے حملہ کر دیا۔ جرمنوں نے اگست 1941 میں کوونو میں ایک یہودی بستی کی ناکہ بندی کر دی۔ ھینی اور اُن کا خاندان یہودی بستی میں منتقل ہونے پر مجبور ہو گیا۔ ھینی نے نومبر 1943 میں یہودی بستی ہی میں شادی کر لی۔ اُن کا جہیز ایک پونڈ چینی تھا۔ یہودیوں کی کئی بار ہونے والی پکڑ دھکڑ سے ھینی بچتی رہیں۔ اُن کے والدین اور دوستوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ ھینی کو بھی 1944 میں شٹٹ ھوف کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ اُس وقت جرمنوں نے کوونو کی یہودی بستی کو ختم کر دیا تھا۔ ھینی کو جبری مزدوری کے ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ 1945 میں جب سوویت فوجیوں نے ھینی کو آزاد کرایا تو اُن کی ملاقات اپنے شوہر سے ہو گئی اور پھر وہ امریکہ چلی آئیں۔
جب ہم شٹٹ ھوف کیمپ پہنچے تو اُنہوں نے عورتوں کو باہر نکلنے کو کہا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے شوہروں یا پھر والدین سے بعد میں ملیں گے۔ لہذا میری بھابھی اور میں یعنی ہم دونوں ریل گاڑی سے اُتریں۔ میرے خیال میں ۔۔۔ میں یقین سے نہیں کہ سکتی کہ اُن کے پاس گاڑیوں کی کوئی سہولت موجود تھی۔ جی ہاں۔ میرا خیال ہے کہ تھی۔ شاید وہاں کھلے ٹرک تھے جہاں ہم موجود تھے۔ ہمیں اُن ٹرکوں میں لاد کر شٹٹ ھوف لایا گیا۔ پھر میرا کوٹ فوراً ہی اتروا لیا گیا۔ اِس کے علاوہ میرے پاس جو کچھ بھی تھا ۔۔۔ حالانکہ میرے پاس کچھ زیادہ چیزیں نہیں تھیں۔ میرے خیال میں میرے لئے موقع نہیں تھا کہ میں اپنے ساتھ کچھ بھی رکھوں۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ رہی۔ اور پھر اُنہوں نے ہمیں کپڑے اُتارنے کو کہا۔ وہاں میزیں تو ہمیشہ ہی ہوتی تھیں جہاں نوجوان جرمن بیٹھے ہوتے تھے۔ اُنہوں نے ہم سے کہا کہ اُس بڑی جگہ پر جاؤ اور کپڑے اُتار دو۔ کپڑے اُتارنے سے مراد یہ تھی کہ سبھی کچھ الگ کر دو۔ اب میں اپنی والدہ کے ساتھ تھی اور وہاں سینکڑوں عورتیں تھیں اور ہم مکمل طور پر کپڑوں کے بغیر قطار میں ایک ڈیسک کے سامنے کچھ لفنگوں کے سامنے کھڑی تھیں۔ آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کہ یہ کیا صورت حال تھی۔ وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق تھے۔ کوئی سیارے تو تھے نہیں۔ بس جہنم سے آئی مخلوق موجود تھی۔ مجھے اُن کے بارے میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ مجھ میں کیا دیکھیں گے۔ اپنی والدہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اِس حالت میں کھڑے کس حد تک گھٹیا محسوس ہو سکتا ہے۔ میرے ساتھ میری بھابھی تھی اور کپڑوں کے بغیر کھڑے ۔۔ وہ آپ کو دیکھتے تھے۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ۔۔۔ میں وہاں کھڑی رہی اور اُنہوں نے صرف ہمیں دیکھا اور پھر ہمیں واپس جا کر نہانے کو کہا۔ پھر اُنہوں نے ہمیں یونیفارم دے دئے۔ دھاری دھار یونیفارم اور یوں ہماری مصیبت کا آغاز ہوا۔ اور یہ حراستی کیمپ تھا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.