جب نازیوں کی یہود مخالف پالیسی میں شدت آئی تو کرٹ خاندان نے جرمنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرٹ 1937 میں امریکہ کیلئے روانہ ہوئے لیکن اُن کے والدین جنگِ عظیم دوم سے پہلے وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کرٹ کے والدین کو جلاوطن کر کے آش وٹز کیمپ بھیج دیا گیا۔ یہ کیمپ جرمن مقبوضہ پولیند میں واقع تھا۔ 1942 میں کرٹ امریکی فوج میں شامل ہو گئے اور فوجی انٹیلی جنس میں اُن کو تربیت دی گئی۔ یورپ میں اُنہوں نے جنگی قیدیوں سے پوچھ گچھ کی۔ مئی 1945 میں اُنہوں نے چیکو سلواکیہ کے ایک گاؤں پر قبضہ کی کارروائی میں حصہ لیا اور اگلے روز وہ اُن 100 سے زائد یہودی عورتوں کی مدد کیلئے لوٹے جنہیں موت کے ایک مارچ کے دوران وہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ کرٹ کی ہونے والی بیوی گرڈا بھی اسی گروپ میں شامل عورتوں میں سے ایک تھیں۔
مجھے سرکاری فوجی یونٹ سے معلوم ہوا کہ اُنہوں نے پولینڈ اور ہنگری کی یہودی عورتوں کے ایک گروپ کے بارے میں سنا ہے جنہیں اُن کے ایس ایس گارڈز نے ایک کارخانے کی خالی عمارت میں چھوڑ دیا تھا۔ اور اُنہیں ہمارے فوجیوں نے آزاد کرا لیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اب ہمیں اُن کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ اگرچہ اُس روز ہم کچھ نہیں کر سکے لیکن اگلی صبح پھر از سرِ نو مجتمع ہو کر واپس ہوئے تاکہ اُن کی دیکھ بھال کر سکیں۔ میں نے سنا تھا کہ کارخانے کی یہ عمارت کہاں واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں جیپ میں اُس عمارت کی طرف گیا۔۔۔ باہر نکلا اور عمارت کے احاطے میں پہنچا جہاں میں نے بہت لاغر ڈھانچے دیکھے جو ایک نلکے سے پانی لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن دوسری جانب عمارت میں داخل ہونے والے دروازے کے قریب دیوار کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی۔ میں نے اُس کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اُس سے جرمن اور انگریزی میں دریافت کیا کہ کیا وہ اِن میں سے کوئی زبان بول سکتی ہیں۔ اُنہوں نے مجھے جرمن زبان میں جواب دیا۔ میں نے اُن سے اُن کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا۔ اُنہوں نے کہا کہ آئیے میں آپ کو دکھاؤں۔ ہم کارخانے کے اندر داخل ہوئے۔ اوہ! وہ منظر ناقابلِ بیان تھا۔ وہاں سوکھی گھاس کے ٹکڑوں پر یہاں وہاں کچھ عورتیں پڑی ہوئی تھیں۔ بعض کے چہروں پر جیسے موت کے نشان تھے۔ وہ بے حد خوفناک دکھائی دیتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ اُن کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے گئے تھے اور وہ بیمار تھیں۔ اور ایک بات جو میں کبھی بھی بھول نہیں سکا وہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ میری گائیڈ لڑکی نے اس تباہ حال منظر کی طرف اشارہ کیا اور کہا "آدمی عالی مرتب ہو، رحم دل اور نفیس۔" مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ لڑکی جرمن شاعر گوئٹے کی مشہور نظم "دا ڈیوائن" کے مصرعے دہرا سکتی تھی۔ ایک ایسی جگہ پر ایک ایسے وقت میں۔ لیکن اس صورتِ حال کی بیکسی اور بے بسی کے اظہار کیلئے اس سے بہتر فقرہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اور یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.