جنگ کن کن چیزوں کو ممکن بنا دیتی ہے؟
جرمنی میں جب نازی 1933 میں برسر اقتدار آئے تو یہودیوں اور ہدف بننے والے دیگر گروپوں کے خلاف ظلم و ستم روا رکھنا حکومت کی منظم پالیسی تھی۔ تاہم جب یکم ستمبر، 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو اس جنگ نے انتہا پسند نازی پالیسیوں میں مذید شدت لانے کیلئے موقع اور ترغیب فراہم کر دی۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کی 80 ویں برسی ہمیں جنگ کے کردار سے متعلق بنیادی سوالات پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ جانے سے کیا امکانات پیدا ہوئے تھے؟
یورپ میں دوسری عالمگیر جنگ کا آغاز یکم سمتبر، 1939 کو ہوا جب جرمنی نے ہمسایہ ملک پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ نے نازی قیادت کو مواقع اور چیلنج فراہم کئے۔ قومی بقا کیلئے جنگ کے نام پر نازی نظریے کو وسیع تر جغرافیائی خطے میں پھیلانے کا موقع فراہم ہوا۔ بہت سے جرمن سمجھتے تھے کہ یہ جنگ یہودیوں اور دیگر غیر ملکی طاقتوں نے جرمنی پر مسلط کی تھی۔ یوں اس جنگ سے نازیوں کو اپنے نسل پرستانہ نظریے پر عملدرآمد کو ایک نئی سطح تک لیجانے میں مدد ملی۔ اس کے پروپیگنڈا کرنے والے اہلکاروں نے پولینڈ پر حملے کو جرمنی کو اپنے دشمنوں سے بچانے کیلئے ایک دفاعی اقدام کے طور پر پیش کیا۔
نازی نظریہ نسل پرستی اور یہود دشمنی کی انتہا پسندانہ اشکال پر مبنی تھا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر ’’عوامی برادری‘‘ کی تشکیل، زندہ انسانوں کے علاقوں کی تسخیر (لیبنسروم) کے ساتھ جرمن سلطنت کی توسیع اور ملک کے اندر اور باہر جرمنی کے دشمنوں کو شکست دینا نازیوں کے نسل پرستانہ نظریے کے مقاصد میں شامل تھے۔ نازی یہودیوں کو جرمن لوگوں کیلئے ایک حقیقی خطرہ اور ان کے بنیادی نسلی دشمن گردانتے تھے۔
پولینڈ پر جرمن قبضہ تباہ کن تھا۔ نازیوں نے پولینڈ کے شہریوں کو گرفتار کر کے اور انہیں قتل کر کے پولینڈ کی ثقافت اور پولش قوم کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور ان کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کو ختم کرنا چاہا۔ جرمن پولیس، ایس ایس، فوجی یونٹوں اور مقامی جرمن ملیشیا نے ہزاروں کی تعداد میں پولش شہریوں، پولینڈ کے نسلی لوگوں اور یہودیوں کو قتل کیا۔ پولینڈ کے لوگوں کو جبری مشقت سہنا پڑی۔ اس جنگ عظیم نے نازی جرمنی کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس علاقے کو توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ ریخ سلطنت میں زم کر لے اور وسیع پیمانے پر ثقافتی اثاثوں کو لوٹے جن میں لائبریریاں، فن پارے، آرکائیو، خوراک اور دیگر انداز کی جائیدادیں شامل تھیں۔
ان لوگوں میں بیشتر لوگ فوجی فتح کے ذریعے جرمن کنٹرول میں آ گئے جنہیں بعد میں نازیوں اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھوں قتل کیا جانا تھا۔ مقبوضہ پولینڈ میں نازی اہلکاروں نے یہودیوں کی بڑی آبادی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ نازیوں کے بنیادی مقاصد میں ’’یہودی معاملے‘‘ کو حل کرنا بھی شامل تھا۔ جنگ کے ساتھ یہ اقدام جنگی مقصد کی شکل اختیار کر گیا باوجود اس بات کے کہ یہ ابھی واضح نہیں تھا کہ یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے کیا ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ پولینڈ کی جنگ سے قبل کی 33 لاکھ آبادی میں سے لگ بھگ 20 لاکھ یہودی مقبوضہ علاقوں میں رہائش پزیر تھے۔ 13 لاکھ یہودی اگست 1939 کے جرمن۔ سوویت سمجھوتے کے تحت سوویت یونین کے مقبوضہ علاقے کے رہائشی تھے۔ اسی سمجھوتے نے پولینڈ پر جرمن حملے کا جواز پیدا کیا۔ اس کے بعد کے سالوں میں جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نازیوں نے ’’حتمی حل‘‘ کیلئے کوششیں تیز کر دیں۔ اس دوران انہوں نے یہودیوں کو پرہجوم گھیٹو یعنی یہودی بستیوں میں محصور کرنا شروع کر دیا جہاں انہیں خوراک اور دواؤں سے محروم رکھا گیا اور انہیں جبری مشقت کیلئے استعمال کیا۔ بالآخر جرمنوں نے یورپ کے تمام یہودیوں کے منظم قتل عام کا آغاز کر دیا۔ وہ اس پروگرام پر جنگ کے بغیر عمل نہ کر پاتے۔
چیم کیپلین نے یکم ستمبر، 1939 کو اپنی ڈائری میں لکھا:
’’ہٹلر کے قدم جہاں بھی پڑتے وہاں یہودیوں کیلئے امید کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ کاش ہٹلر کا نام و نشان مٹ جائے۔ اس نے اپنی ایک تقریر کے دوران دھمکی دی کہ اگر جنگ ہوئی تو یورپ سے یہودیوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔ یہودی اس بات کو سمجھتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ہٹلر کی فوجیں جہاں جہاں بھی عارضی فتح حاصل کرتی ہیں وہاں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔‘‘
جنگ نے نازی لیڈروں کو معذوری کا شکار جرمن لوگوں کو منظم طریقے سے قتل کر کے ’’عوامی برادری‘‘ کو ’’پاک‘‘ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ نازی معذوری کا شکار لوگوں کو جرمن نسل پر ایک جینیاتی دھبہ تصور کرتے تھے اور انہیں ان وسائل پر ایک بوجھ سمجھتے تھے جن کی جرمن قوم کو جنگ کیلئے ضرورت تھی۔ ایک خفیہ خط میں جس کی تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے یکم ستمبر، 1939 کر دی گئی ہٹلر نے رحمدلانہ موت دینے کی اجازت جاری کر دی۔ ’’یوتھینیزیا‘‘ یا ’’رحمدلانہ موت‘‘ کو نازی لیڈر درپردہ طور پر ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کے منظم قتل عام کے پروگرام کیلئے استعمال کرتے تھے۔ اس پروگرام کا شکار بننے والے لوگوں کو دماغی امراض کے ہسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز سے مخصوص ’’یوتھینیزیا‘‘ سنٹرز لیجایا جاتا تھا جہاں گیس چیمبر نصب ہوتے تھے جنہیں غسل گاہیں بتایا جاتا تھا۔
جنگ کے دوران سیکورٹی اقدامات کی آڑ میں کیمپوں کے نظام کو مقبوضہ علاقوں کی شکل دے دی جاتی۔ ایس ایس، پولیس کے دستے اور جرمن فوج ان افراد یا گروپوں کو انتہائی بے رحمی سے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے تھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ جرمنی کے جنگی اقدامات اور جرمن لوگوں کیلئے کسی قسم کے خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ روما خانہ بدوش اور سنٹی، گواہان یہووا، تمام تر یورپ کے مزاحمتی عسکریت پسند، وفاداری بدلنے والے جرمن افراد یا قوائد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والے جرمن فوجی، عام مجرم، مطلوبہ حد تک محنت نہ کر پانے والے جبری مزدور، جرائم کا ارتکاب کرنے والے کم عمر نوجوان اور ہم جنس پرست اس ظم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔ اس کے علاوہ دسیوں لاکھوں ایسے افراد کو بھی پکڑ کر جبری مشقت پر مجبور کر دیا گیا جن پر جرمنوں نے کسی قسم کے جرائم کا الزام بھی عائد نہیں کیا تھا۔
دوسری عالمگیر جنگ اور جرمنوں کی دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی سخت پالیسیوں کے باعث برلن اور محاذ جنگ پر نازی سویلین اور فوجی لیڈروں کو مذید انتہاپسندانہ اور ہلاکت خیز پالیسیاں اپنانے کیلئے ماحول، موقع اور جواز فراہم ہو گیا۔ یہودیوں کا قتل عام مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر 1941 میں سوویت یونین پر حملے سے شروع ہوا اور پھر یہ تیزی کے ساتھ شدت اختیار کرتے ہوئے یورپ بھر کے یہودیوں کے قتل عام کا روپ اختیار کر گیا۔ 1942 کے اختتام تک 40 لاکھ یہودی ہلاک کر دئے گئے۔ 6 جون، 1944 کو اتحادی فوجوں کی مقبوضہ فرانس میں آمد کے ڈی ڈے کے موقع تک 50 لاکھ یہودی قتل ہو چکے تھے۔ اتحادی فوجوں کی طرف سے نازی جرمنی کو شکست دئے جانے تک ہولوکاسٹ ختم نہیں ہوا تھا۔
یورپ کے یہودیوں کا قتل عام اور ہدف بننے والے دیگر گروپوں کی ہلاکت اور استحصال دوسری عالمی جنگ اور اس میں جرمنی کی ابتدائی کامیابیوں کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔