ہٹلر یوتھ (Hitlerjugend، یا HJ) نازیوں کی منظم شدہ نوجوانوں کی تحریک تھی۔ یہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مخلتف شاخوں پر مشتمل تھی۔ لڑکوں کی شاخ کو محض ہٹلر یوتھ کہا جاتا تھا۔ لڑکیوں کی شاخ لیگ آف جرمن گرلز (Bund Deutscher Mädel، BDM) کہلاتی تھی۔

جنوری 1933 میں جب نازی برسرِ اقتدار آئے تو ہٹلر یوتھ کی تحریک میں تقریباً 100,000 ارکان شامل تھے۔ اسی سال کے آخر تک رکنیت 20 لاکھ سے اوپر پہنچ گئی (یہ جرمنی کے 30 فیصد نوجوانوں پر 18 سال کے درمیان تھیں)۔ آنے والے سالوں میں نازی حکومت نے نوجوان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہٹلریوتھ تنظیموں میں شامل ہوجائیں۔ جوش و ولولہ، ساتھیوں کا دباؤ، اور جبر جیسے عوامل کی وجہ سے رکنیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 1937 تک ہٹلر یوتھ کی رکنیت 54 لاکھ تک پہنچ گئی (جو نوجوانوں کی 65 فیصد پر مشتمل تھی جن کی عمریں 10 سے 18 سال کے درمیان تھیں)۔ 1940 تک یہ تعداد 72 لاکھ (82 فیصد) تک پہنچ گئی۔1  

یہ بات اہم ہے کہ یہودیوں کو ان تنظیموں میں شمولیت کی اجازت نہیں تھی۔ یہودی نوجوانوں نے 1930 کی دہائی کے دوران جرمنی میں اپنے یوتھ گروپس تشکیل دیے۔ 

نازیوں کے اقتدار پر قبضے سے پہلے نوجوان تحریکیں

1934 میں بروہل کے رائن لینڈ سٹی میں ہٹلر کے حامی ایک نوجوان  تصویر کھنچوانے کیلئے پوز دیتے ہوئے۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل سے ہی سکاؤٹنگ اور یوتھ تحریکیں جرمنی میں مقبول ہوچکی تھیں۔ جب 1933 میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آئے تو نوجوانوں کے متعدد سیاسی، سماجی، اور مذہبی گروپ موجود تھے۔ نوجوانوں کے یہ گروپ اکثر سکاؤٹنگ کی وردیاں پہنتے تھے۔ 

نوجوانوں کے ان گروپس میں سے ایک ہٹلر یوتھ تھا جو نازی پارٹی سے الحاق شدہ تھا۔ ابتدائی طور پر ہٹلر یوتھ لڑکوں کا ایک نازی یوتھ گروپ تھا۔ اسے بالغ گروپ نازی پیرا ملٹری دستے ایس اے (Sturmabteilung) کی طرز پر تشکیل دیا گیا تھا۔ ہٹلر یوتھ نازی پارٹی کی دوسری قدیم ترین پیراملٹری تنظیم تھی۔ 

یہ تنظیم نازی پارٹی کی یوتھ لیگ (Jugendbund der NSDAP) کے طور پر مارچ 1922 میں شروع ہوئی۔ نومبر 1923 میں جب نازیوں نے بیئر ہال انقلاب کے دوران جرمن حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تو حکومت نے نازی تنظیموں پرعارضی طور پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی میں یوتھ لیگ بھی شامل تھی۔ بہرحال، 1924 میں قائم ہونے والی گریٹر جرمن یوتھ موومنٹ کے طور پر یوتھ تحریک خفیہ طور پر جاری رہی۔ جب پابندی اٹھا لی گئی تو جولائی 1926 میں نوجوانوں کی موجودہ رسمی تنظیم ہی ہٹلر یوتھ، لیگ آف جرمن ورکر یوتھ (Hitler-Jugend, Bund deutscher Arbeiterjugend) بن گئی۔ اس تنظیم کو رسمی طور پر SA میں ضم کر دیا گیا تھا۔ 

نازی یوتھ کو منظم کرنا

جیسے جیسے 1930 کے اوائل میں نازی پارٹی نے مقبولیت حاصل کرنی شروع کی، وہ جرمنی کے نوجوانوں میں اپنا اثر و رسوخ اور رسائی بڑھانے کے خواہاں رہے۔ انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو شامل کرنے کے لئے ہٹلر یوتھ میں توسیع کر دی تھی۔ 1931 تک اس کے چار سیکشنز تھے جو جنس اور عمر کے حساب سے ترتیب دیے گئے تھے: 

  • جرمن ینگسٹرز (Deutsches Jungvolk) جو 10 سے 14 سال کی عمر کے لڑکوں کے لئے تھی؛
  • ینگ گرلز لیگ (Jungmädelbund) جو 10 سے 14 سال کی لڑکیوں کے لئے تھی؛
  •  لیگ آف جرمن گرلز (Bund Deutscher Mädel، یا BDM) جو 14 سے 18 سال کی لڑکیوں کے لئے تھی؛
  •  ہٹلر یوتھ (Hitlerjugend) جو 14 سے 18 سال کے لڑکوں کے لئے تھی۔

بعد ازاں نازیوں نے 17-21 سال کی نوجوان خواتین کے لئے لیگ آف جرمن گرلز کا رضاکارانہ شعبہ بنایا جو وفا اور حسن (Faith and Beauty) (Glaube und Schönheit) کہلاتا تھا۔ 

1931 میں بالڈر وان شیراخ (Baldur von Schirach) ان چاروں شاخوں پر مشتمل پوری ہٹلر یوتھ تحریک کی رہنمائی کا ذمہ دار تھا۔ بعد میں 1940 میں وہ ویانا کی نازی پارٹی کا سربراہ (Gauleiter) بن گیا۔ تاہم اس نے نوجوانوں کی تحریک سے قریبی روابط بحال رکھے۔ ایک ہٹلر یوتھ لیڈر، 27 سالہ آرتھر آکسمن (Artur Axmann) اس کا متبادل بن گیا۔ 

جرمن نوجوانوں کو نازی بنانا 

ہٹلر یوتھ تعلیمی پریزنٹیشن بعنوان

نازی نظام حکومت میں ہٹلر یوتھ کا کردار

1933 سے آغاز کرتے ہوئے ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز نے نئے نازی نظام حکومت میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان تنظیموں کے ذریعے نازی نظامِ حکومت نوجوان لوگوں کو نازی آئیڈیالوجی ذہن نشین کروانے کا منصوبہ رکھتی تھی۔ یہ جرمن معاشرے کو نازی بنانے کے عمل کا ایک حصہ تھا۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ معاشرے کے موجودہ ڈھانچوں اور روایات کو منہدم کر دیا جائے۔ نازی یوتھ گروپس کا کردار ہم آہنگی کو نافذ کرنا تھا۔ جرمنی بھر میں نوجوان ایک ہی وردی پہنتے، ایک ہی جیسے نازی گیت گاتے، اور ایک جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔

گروپس نے ایسا کرنے کے لئے جو طریقہ اپنایا وہ یہ تھا کہ جرمنی کے نوجوانوں کی زندگیوں کو نمایاں کرنے کے لئے ہٹلر یوتھ تحریک کو استعمال کیا جائے۔ تنظیم سے منسوب ہونے کیلئے کافی وقت دینا پڑتا تھا۔ ہٹلر یوتھ کے ارکان کو باقاعدگی سے میٹنگز اور تقریبات میں حاضری دینا ہوتی تھی۔ اس سے گرجا اور سکول جانے جیسی دیگر ترجیحات متاثر ہوتی تھیں۔  

اوقات کی یہ پابندی اور نازی نظریات کا باقاعدگی سے سامنا والدین، اساتذہ، مذہبی شخصیات، اور دوسری با اختیار آوازوں کے اثر کو کمزور کر دیتا تھا۔ درحقیقت، ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز نے بھی ارکان کی حوصلہ افزائی کی کہ ان کے سکولوں، گرجوں، اور خاندانوں میں جو بھی ہو رہا ہو اس کی رپورٹ اپنے لیڈرز کو کریں۔ 

یوتھ تحریک کو مستحکم کرنا

نازی ریاست چاہتی تھی کہ ہٹلر یوتھ تمام جرمن نوجوانوں کی نگرانی کرے۔ انہوں نے نوجوانوں کی دیگر تنظیموں کو مقابلے کی نظر سے دیکھا۔ 1933 میں نوجوانوں کے سیاسی گروپس کو جلد ہی ضم کرلیا گیا یا دبا دیا گیا۔ تاہم نوجوانوں کے غیر سیاسی اور مذہبی گروپس 1930 کی دہائی میں برقرار رہے۔ نوجوانوں کے گروپس کی تحلیل اور انضمام ایک ایسا عمل تھا جو پورے معاشرے کی سطح پر ہو رہا تھا جو Gleichschaltung، یا "کوارڈینیشن" کہلاتا تھا۔

 1936 میں ہٹلر یوتھ سے متعلقہ قانون کہتا تھا: "ہٹلر یوتھ رائخ علاقے کے اندر تمام جرمن نوجوانوں کا احاطہ کرتی ہے۔" اس قانون کے ساتھ ہٹلر یوتھ نے نوجوانوں کے تمام متعلقہ معاملات پر اپنا دعویٰ مسلط کر دیا تھا۔ تاہم اطاعت ہمہ گیر نہیں تھی۔

مارچ 1939 میں ایک نئی شق کے تحت 10 سے 18 سال کی عمر کے تمام نوجوانوں سے تقاضا کیا گیا کہ وہ ہٹلر یوتھ میں شامل ہوں۔ اس وقت کے بعد نازی جرمنی میں ہٹلر یوتھ نوجوانوں کی واحد قانونی تحریک بن گئی۔ نظام ِ حکومت نے ان لوگوں کو سزا دینے کی دھمکی دی جو تعمیل کرنے میں ناکام تھے۔

 نوجوانوں کو مستقبل کے لئے تیار کرنا

ہٹلر یوتھ کے ارکان اپنے لیڈر کے سامنے مارچ کرتے ہوئے، بالڈور وان شیراخ (دائيں طرف، سلامی دے رہا ہے) اور جولیئس اسٹرائخر سمیت دوسرے نازی اہلکار۔

نازی پارٹی نوجوانوں کو ایک نئی دنیا کی بنیاد کے طور پر دیکھتی تھی۔ نوجوان لوگ مستقبل کے پارٹی ارکان، مائیں، اور سپاہی تھے۔ چنانچہ نازیوں نے انہیں Volksgemeinschaft ("لوگوں کے معاشرے") کی بقا اور صحت کے لئے لازمی سمجھا۔ وہ بچوں کو نسلی شعور رکھنے اور جسمانی طور پر تندرست رہنے کی تعلیم دینے کی امید رکھتے تھے تاکہ جرمنی کے ایک نئے مستقبل کی تعمیر کی جائے۔ مستقبل کی ایک علامت کے طور پر ہٹلر یوتھ اکثر اوقات نورمبرگ کی سالانہ ریلیوں سمیت، نازی پارٹی کی ریلیوں اور مارچز میں موجود ہوتے تھے۔ لینی ریفنسٹال (Leni Riefenstahl) کی فلم ارادوں کی فتح (Triumph of the Will) (Triumph des Willens) میں ہٹلر کو 1934 کی نورمبرگ ریلی میں ہٹلر یوتھ کے ارکان سے بات کرتے ہوئے، اور پھر خیر مقدم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ہٹلر یوتھ

ہٹلر یوتھ ایک نیم فوجی تنظیم تھی۔ نازی مقاصد کے لئے لڑکوں کی مستقبل کے جنگجوؤں اور سپاہیوں کے طور پر تربیت کرنے کے لئے اسے تشکیل دیا گیا تھا۔ نازی ریاست کی ایک سرکاری تنظیم کے طور پر ہٹلر یوتھ مقامی، علاقائی، اور قومی سطحوں پر ایک فوجی طرز کا ڈھانچہ رکھتی تھی۔ 

لڑکے کڑی فوجی تربیت کی مشقیں کرتے اور اسلحہ چلانا سیکھتے تھے۔ وہ موسم گرما میں کھیتوں میں بھی کام کرتے اور مقابلے کے کھیلوں، بالخصوص باکسنگ میں شریک ہوتے تھے۔ کچھ لڑکے جسمانی ازمائشوں، مقابلوں، اور دوستیوں سے لطف اٹھاتے تھے۔ تاہم دیگر لوگ جنگ کی تیاری پر مسلسل توجہ مرکوز کرنے اور آبائی وطن کے لئے اپنا آپ نچھاور کرنے کے جذبات سے مغلوب رہتےاور الگ تھلگ رہتے تھے۔  

لیگ آف جرمن گرلز 

لیگ آف جرمن گرلز کا مقصد مستقبل کی بیویاں اور مائیں بنانے کے لئے لڑکیوں کو تیار کرنا تھا۔ لڑکیاں بھی کسرتی ورزشوں جیسی، جسمانی سرگرمیوں میں شامل ہوتی تھیں۔ لڑکیوں کے کھیل مقابلہ جاتی اور انفرادی ہونے کی بجائے، اجتماعی اور ہم آہنگ ہوتے تھے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد باہم مل جل کر کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ لیگ نے گھر اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے لڑکیوں کی تربیت کی۔ لڑکیوں نے سلائی، نرسنگ، کھانا پکانا، اور گھر کے کاموں جیسی مہارتیں سیکھیں۔ 

حزب اختلاف میں نوجوان

ایک ریلی میں ہٹلر یوتھ  کے ارکان نے نامعلوم فوجی کی یاد میں نازی کے نشان یعنی سواسٹیکا کی شکل میں پریڈ کی۔

نازی ریاست نے اپنی ہٹلر یوتھ تنظیموں میں نوجوانوں کی ایک ہم آہنگ تہذیب پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، کچھ نوجوانوں نے شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ بعض اوقات یہ ایک سیاسی یا مذہبی بیان ہوتا تھا۔ دوسرے اوقات میں ان کا انکار بالغانہ بغاوت یا انفرادی رائے پر مبنی ہوتا تھا۔

خاص طور پر بڑے شہروں میں یہ بات عام تھی کہ نوجوانوں کے غیر قانونی گروہوں نے ہٹلر یوتھ کی تہذیب کو مسترد کر دیا تھا۔ نوجوانوں کے یہ گروپس ہم آہنگی اور عسکری سازی کو ناپسند کرنے کا رحجان رکھتے تھے۔ وہ عمومی طور پر مختلف وضع قطع کا لباس پہنتے تھے اور نسبتاً کم منظم سماجی سرگرمیوں میں شامل ہوتے تھے۔ نوجوانوں کے کئی غیر قانونی گروہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لئے تھے۔ کچھ تو ہٹلر یوتھ کے کڑے نظام کے بجائے صنف کی بنیاد پر بدلتے کرداروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ 

ان غیر رسمی، متنوع گروپس میں سے ہر ایک نے خود اپنی خصوصیات وضع کر رکھی تھیں۔ Leipzig Meuten کمیونسٹوں سے متاثرہ نازی مخالف گروپ تھا۔ اکھڑ اور متلون مزاج Edelweiss Pirates کبھی کبھار ہٹلر یوتھ کے ارکان سے جسمانی جھڑپیں کرتے تھے۔ ہیمبرگ میں نوجوانوں کا سب سے نمایاں ایک متبادل گروپ سوئنگ کڈز (The Swing Kids) سوئنگ ناچ کرتے اور جاز موسیقی سنتے تھے۔ وہ اپنے بال بڑھاتے تھے اور امریکی یا برطانوی طرز کا لباس پہنتے تھے۔ 

یہ باغی نوجوان گستاپو (Gestapo) کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور حراستی کیمپوں میں قید کئے جانے کے حقیقی خطرے کی زد میں تھے۔

 نوجوانان کو جنگ کی ترغیب دینا

1939 میں جنگ چھڑ جانے پر ہٹلر یوتھ نوجوان لوگوں کی ایک نسل کو پہلے سے تیار کرچکی تھی کہ وہ جنگ لڑیں اور بیرونی علاقے پر قابض ہوجائیں۔ 1930 کے اوائل میں ہٹلر یوتھ میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوان مردوں اور خواتین کو عملی مہارتیں اور نازی خیالات سکھائے جا چکے تھے۔ جو پہلے ہی اٹھارہ سال کے ہو چکے تھے انہوں نے جرمن جنگ کی تگ و دو میں اس علم کو استعمال کیا۔ انہوں نے سپاہیوں، پولیس والوں، سیکریٹریوں، نرسوں، اور ڈاکٹروں کے طور پر کام کیا۔

فوج اور دیگر نازی تنظیموں میں شامل ہونے کے لئے ہٹلر یوتھ کے ارکان کی اگلی نسل ابھی کافی چھوٹی تھی۔ لیکن جنگ میں ادا کرنے کے لئے ان کا بھی ایک کردار تھا۔ ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز نے جنگ سے متعلقہ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے محاذ پر فوجی دستوں کے لئے نگہداشت کے پیکیجز ترتیب دیے۔ 

بڑے لڑکوں اور لڑکیوں کو کچھ ایسے علاقوں میں تعینات بھی کیا گیا جو جنگ سے پہلے اور جنگ کے آغاز میں جرمنی سے الحاق شدہ تھے۔ نازی سمجھتے تھے کہ جرمنی کی قبل از جنگ سرحدوں کے باہر رہنے والی جرمن اصل رکھنے والی آبادیوں کو دوبارہ جرمنی میں ضم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ہٹلر یوتھ نے ان آبادیوں کو جرمن زبان اور دیگر جرمن ثقافتی روایات سکھائیں۔

 جنگ کا خاتمہ

نازی جرمنی کی شکست، 1942-1945

جب یہ واضح ہوگیا کہ نازی جرمنی جنگ ہار رہا تھا، نازی نظام حکومت کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا تھا۔ اتحادیوں کے فضائی حملوں نے جرمن شہروں کے بڑے حصوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے نقل حمل کی مشکلات پیدا ہوئیں اور رہائش اور سامانِ رسد کی قلت ابتر ہو گئی۔ چھاپوں کے دوران حکومتی نظام طیارہ شکن رائفلیں استعمال کرنے کے لئے کم سن نوجوانوں کو استعمال کرتے تھے۔ بعد میں نوجوانوں نے متعدد امدادی سرگرمیوں کے ذریعے تباہی سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی مدد بھی کی۔ مثال کے طور پر لڑکیاں شوربے کے باورچی خانوں میں کام کرتیں، ان کی مدد کرتیں جن کے گھر تباہ ہوگئے تھے، اور نرسوں کے معاونین کے طور پر کام کرتیں۔

1943 میں Waffen-SS نے ہٹلر یوتھ پر مشتمل ایک خصوصی ڈویژن تشکیل دی۔ یہ ڈویژن 1926 میں پیدا ہونے والے لڑکوں پر مشتمل تھی (جو 1943 میں 16 یا 17 سال کے تھے)۔ اس ڈویژن کو پہلے فرانس میں تعینات کیا گیا۔ وہاں انہوں نے کینیڈین جنگی قیدیوں کا آرڈین ایبے قتلِ عام Ardenne Abbey massacre) جیسے قتل و غارت کے کئی بازار گرم کئے۔ اس ڈویژن نے فرانسیسی آدمیوں کو انتقامی طور پر قتل بھی کیا، جو اسک قتلِ عام (Ascq massacre) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نوجوان فرانس میں نارمنڈی معرکے میں اور بیلجیم میں معرکۂ بلج میں اتحادی دستوں سے لڑے۔

جنگ کے آخری مہینوں میں 16 سے 60 سال کے مردوں کو ایک نئی دفاعی ملیشیا Volkssturm (چھوٹے لوگوں کا طوفان) میں بھرتی کر لیا گیا۔ اتحادی دستوں کے خلاف آخری دفاعی معرکوں میں اس ملیشیا کو معمول کی فوج میں شامل کر دیا گیا تھا۔ 

شکست اگرچہ اٹل ہوچکی تھی لیکن پھر بھی ناکافی ساز وسامان اور ناقص تربیت رکھنے والے ہزاروں نوجوان جرمن جنگ کی جدوجہد میں لڑے اور مارے گئے۔

جنگ کے بعد

نازی پارٹی کی طرح ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز کو جنگ کے بعد اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اس وقت تک کئی لاکھ نوجوان اور بالغ نوجوان اپنے تعمیری سال ہٹلر یوتھ تنظیموں کے ارکان کی حیثیت سے گزار چکے تھے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے جرمن معاشرے پر ان تنظیموں کا بہت زیادہ اثر پڑا۔