یہودی بستیاں - تصویریں

" گھیٹو" کی اصطلاح اصل میں وینس کی اُن یہودی بستیوں کے نام سے لی گئی ہے جو 1516 میں قائم کی گئی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودی بستیاں وہ شہری ضلعے تھے (جو اکثر اپنی حدود کے اندر بند رہتے تھے) جن میں جرمنوں نے یہودیوں آبادی کو محصور رکھا اور اُنہیں انتہائی خراب حالات میں رہنے پر مجبور کیا۔ ان یہودی بستیوں نے یہودیوں کو غیر یہودی لوگوں اور اِس بستی سے ملحقہ علاقوں کی یہودی برادریوں سے الگ کر دیا۔ جرمنوں اور اُن کے حلیفوں نے پورے مشرقی یورپ میں 800 سے زیادہ یہودی بستیاں قائم کیں۔ جنگ کے دوران کم از کم دس لاکھ یہودیوں کوان بستیوں میں قید رکھا گیا۔

جرمنوں نے ان یہودی بستیوں کے قیام کو یہودیوں کو علیحدہ رکھنے کی غرض سے ایک عارضی اقدام کے طور پر لیا۔ بہت سی جگہوں پران بستیوں کی تشکیل کا عمل نسبتاً کم وقت کیلئے رہا جبکہ دوسری جگہوں پر کچھ ماہ یا کچھ سال تک رہا۔ جب 1941 میں "فائنل حل" (تمام یورپی یہودیوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ) پر عمل درآمد کا آغاز ہوا تو جرمنوں نے تمام گھیٹو یعنی یہودی بستیوں کو منظم طریقے سے تباہ کرنا شروع کر دیا۔ جرمن اور اُن کے حلیفوں نے یہودی بستیوں کے رہائشیوں کو یا تو گولی مار کر قریب واقع اجتماعی قبروں میں دفنا دیا یا پھر اُنہیں عموماً ریل گاڑیوں کے ذریعے جلا وطن کر کے قتل گاہوں میں پہنچا دیا جہاں اُنہیں قتل کر دیا گیا۔ جرمن ایس۔ ایس اور پولیس حکام نے یہودی بستیوں کے مکینوں کی ایک مختصر تعداد کو جلا وطن کر کے جبری مشقت کے کیمپوں اور حراستی کیمپوں میں پہنچا دیا۔

بہت سی یہودی بستیوں کو جو (بنیادی طور پر جرمن مقبوضہ مشرقی یورپ میں قائم تھیں) دیواروں یا پھر لکڑی یا خاردار تاروں کی باڑ سے بند کر دیا گیا۔ تمام کے تمام خاندانوں کو اِن یہودی بستیوں میں قید رکھا گیا تھا جن میں عمر رسیدہ افراد اور چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اِن بستیوں میں بہت زیادہ بھیڑ تھی اور اِن میں صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ فاقہ کشی، خوراک، کپڑوں، دواؤں اور دوسری ضروریات کی شدید قلت اور شہری سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بسیتیوں میں بار بار وباء پھوٹ پڑتی تھی اور اِن کے رہائشیوں میں اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔ اِن بستیوں میں کئی ھزار یہودی موت کا شکار ہو گئے۔ جو یہودی زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے اُنہیں خوف اور باہر کی دنیا سے کٹ کر رہنے کی صورت حال کا سامنا تھا۔

پولنڈ میں سب سے بڑی یہودی بستی وارسا یہودی بستی تھی جہاں تقریباً چار لاکھ 50 ھزار یہودیوں کو صرف 1.3 مربع میل رقبے کے اندر ٹھونس کر رکھا گیا تھا۔ دیگر بڑی یہودی بستیاں لوڈز، کراکاؤ، بیالیس ٹوک، لووو، لوبلن، ولنا، کاونو، چیسٹوچووا اور منسک میں قائم کی گئی تھیں۔ مغربی یورپ سے بھی ھزاروں کی تعداد میں یہودیوں کو جلاوطن کر کے مشرق میں واقع اِن کیمپوں میں بھیجا گیا تھا۔

نازیوں نے یہودیوں کو شناختی بیج یا پٹیاں پہننے کا حکم دیا۔ اِس کے علاوہ بہت سے یہودیوں کو جرمن ریخ کیلئے جبری مشقت پر مجبور کر دیا گیا۔ یہودی بستیوں کی روزمرہ زندگي کا انتظام نازیوں کی مقررکردہ یہودی کونسلوں (جوڈین ریٹ) اور یہودی پولس کے سپرد ہوتا تھا۔ جرمن اِن بستیوں کے اندر نظم و نسق برقرار رکھنے اور مکینوں کو قتل گاہوں میں بھجوانے کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے اِن پر دباؤ برقرار رکھتے تھے۔

یہودیوں نے ان اقدامات کے جواب میں مزاحمت کی مختلف انداز میں کوششیں کیں۔ خوراک اور ہتھیاروں کی بستیوں کے اندر اسمگلنگ، نوجوانوں کی تحریکوں میں شمولیت یا خفیہ ثقافتی تقریبات میں شرکت کے اقدامات اکثر یہودی کونسلوں کی منظوری کے بغیر کئے جاتے (اگرچہ بہت سی مثالوں میں یہودی کونسلوں نے ثقافتی سرگرمیوں کی پشت پناہی بھی کی)۔

کچھ بستیوں میں یہودی مزاحمت کی تحریکوں کے ارکان نے مسلح بغاوت کی۔ ان میں سے سب سے بڑی مسلح بغاوت وارسا بستی میں 1943 کے موم بہار میں ہوئی۔ کچھ دوسری پر تشدد بغاوتیں ولنا، بیالیس ٹوک، چیسٹوچووا اور متعدد چھوٹی بستیوں میں بھی رونما ہوئیں۔ اگست 1944 میں نازیوں نے لوڈز میں واقع سب سے آخری بڑی یہودی بستی کو تباہ کر دیا۔

یہودی بستیوں اور کیمپوں میں یہودی مسلح مزاحمت، 1941-1944

ہنگری میں ان بستیوں کی تشکیل کا عمل 1944 کے موسم بہار میں جرمن حملے اور ہنگری ملک پر اُس کے قبضے تک شروع نہیں ہوا تھا۔ تین مہینوں سے بھی کم مدت میں ہنگری کی پولس نے جرمن پولس کے ساتھ مل کر ہنگری کی یہودی بستیوں سے تقریبا 4 لاکھ 40 ھزار یہودیوں کو جلاوطن کر دیا۔ اِن میں سے بشتر کو آشوٹز۔ برکینو کی قتل گاہ بھجوا دیا گیا۔ ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں یہودیوں کو نشان زدہ مخصوص گھروں میں قید رکھا گيا (اسے حضرت داؤد کے گھروں کے ستارے کا نام دیا گیا)۔ نومبر 1944 میں جرمنی کی سرپرستی میں ہنگری میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اِس کے فوری بعد ہنگری کی فاشسٹ ایرو کراس پارٹی نے باقاعدہ طور پر بوڈاپیسٹ میں یہودی بستی قائم کی۔ 63 ھزار کے لگ بھگ یہودیوں کو 0.1 مربع میل کے مختصر علاقے میں محصور رکھا گیا۔ 25 ھزار یہودی جن کے پاس حفاظتی پاسپورٹ تھے (یہ پاسپورٹ غیرجانبدار ملکوں کے نام پرجاری کئے گئے) ان کو ایک ایسی بستی میں رکھ دیا گيا جو شہر میں کسی دوسرے علاقہ میں "بین الاقوامی بستی" کے نام سے موسوم تھی۔ جنوری 1945 میں سوویت افواج نے بوڈاپیسٹ کو آزاد کرالیا جس سے ہنگری کے یہودیوں کیلئے بستیوں کی تشکیل کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں پر مکمل کنٹرول، اُن سے انسانیت سوز سلوک اور اُن کے قتل عام کے سلسلے میں یہودی بستیوں یا گھیٹو کی تشکیل کے اقدامات مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔