لفظ "گھیٹو" یا یہودی بستی اصل میں وینس میں 1516 میں قائم ہونے والے یہودی کوارٹروں کے نام سے لیا گيا ہے جن میں وینس کے حکام نے شہری یہودیوں کو رہنے پر مجبور کیا۔ ہولوکاسٹ کے دوران یہودی بستیاں یہودیوں کے اجتماعی قتل، ان کو انسانیت سے محروم کرنے اور ان پر کنٹرول کرنے کے نازی سلسلے کیلئے بنیادی جگہیں ہوا کرتی تھیں۔ یہودی بستیاں شہر کے وہ اضلاع تھے (جنہيں اکثر گھیرے میں لیا جاتا تھا) جہاں جرمنوں نے یہودی آبادیوں کو خراب ترین حالتوں میں زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ جرمنی نے صرف مقبوضہ پولینڈ اور سوویت یونین میں ہی کم از کم 1,000 یہودی بستیاں قائم کیں۔ جرمن حکام نے پولینڈ میں پیوٹرکو ٹرائیبونلسکی میں 1939 میں پہلی یہودی بستی قائم کی۔ بہت سی جگہوں میں ان بستیوں کو بسانے میں نسبتا کم وقت لگا۔ کچھ بستیاں صرف چند دنوں کے لئے قائم رہیں، کچھ مہینوں کے لئے اور کچھ سالوں کے لئے۔ 1941 کے اختتام پر "حتمی حل"(تمام یورپی یہودیوں کو مارنے کا منصوبہ) کی عملدرآمدگی کے ساتھ جرمنوں نے منظم طریقے سے یہودی بستیوں کو تباہ کر ڈالا۔ جرمنی اور اس کے حلیفوں نے یا تو یہودی بستیوں میں رہنے والوں کو اجتماعی قبروں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا یا انہیں عام طور پر ٹرین کے ذریعے قتل کے مراکز کی طرف جلاوطن کر دیا جہاں انہيں مار ڈالا جاتا۔

پولینڈ میں سب سے بڑی یہودی بستی وارسا یہودی بستی تھی جہاں تقریبا 400،000 یہودیوں کو صرف 1.3مربع میل کی جگہ میں جمع کیا گیا تھا۔ ہزاروں مغربی یورپی یہودیوں کو بھی مشرق میں قائم یہودی بستیوں کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ جرمن نے یہودی بستیوں میں رہنے والے یہودیوں کو شناختی پٹیاں باندھنے کا حکم دیا نیز بہت سے یہودیوں کو جبری مشقت پر بھی مجبور کیا۔ یہودی بستی میں رہنے والے لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے مثلا کھانا، دوائی، ہتھیار اسمگل کرنا یا یہودی بستی کی دیواروں کے پار جاسوسی کرنا۔ جرمنوں نے عام طور پر ہتھیار رکھنے اور یہودی بستیوں کے اندر جاسوسی کرنے پر مکمل پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کسی قسم کی مسلل تعلیم کو بھی مکمل طور پر منع کیا ہوا تھا۔ کچھ یہودی بستیوں میں یہودی مزاحمتی تحریکوں کے ممبران نے مسلح بغاوت بھی کی۔ ان میں سب سے زیادہ بڑی بغاوت 1943 کے موسم بہار میں وارسا یہودی بستی کی بغاوت تھی۔ اگست 1943 میں جرمن ایس ایس اور پولیس نے پولینڈ میں لوڈز میں موجود آخری بڑی یہودی بستی کو تباہ کر ڈالا۔