دوسرے یہودیوں کی طرح لیونٹ خاندان کو بھی وارسا یہودی بستی میں قید کردیا گيا تھا۔ 1942 میں ابراھیم نے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپ کر اپنی جان بچائی لیکن جرمن فوجیوں نے اس کی ماں اور بہنوں کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا۔ وہ ہلاک کردئے گئے۔ ابراھیم کو ایک قریبی مقام پر جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ لیکن وہ بچ کر اپنے والد کے پاس یہودی بستی میں چلا آیا۔ 1943 میں ان دونوں کو مجدانک بھجوا دیا گیا جہاں ابراھیم کے والد کا انتقال ہوگيا۔ بعد میں ابراھیم کو اسکارزسکو، بوخن والڈ، بیسنجن اور ڈاخو بھیج دیا گيا۔ جب جرمنوں نے کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء شروع کیا تو امریکی فوجیوں نے ابراھیم کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںاپنی جوانی میں بینو نے فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنے کیلئے غیر ملکی زبانوں میں اپنی مہارت کو استعمال کیا۔ اسے اور اس کے خاندان کو لوڈز کی یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں ہر روز کھانا حاصل کرنے کے لئے شدید جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ اپنی خفیہ سرگرمیوں کے طور پر بینو نے ریل گاڑیوں کو پٹری سے اتارنے میں ہنرمندی حاصل کر لی تھی۔ اس کے خاندان کو اس سے جدا کر کے آش وٹز بھیج دیا گیا تھا۔ بینو اور اس کی ایک بہن کے سوا، جو اسے جنگ کے بعد ملی، خاندان کے تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ بینو متعدد کیمپوں سے زندہ بچ گیا اور بعد میں اس نے جنگی مجرموں کا سراغ لگانے میں مدد کی۔
آئٹم دیکھیںبلانکا پولینڈ کے شہر لوڈز میں ایک مربوط خاندان کی اکیلی بچی تھی۔ اس کے والد کا 1937 میں انتقال ہوگيا۔ پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد بلانکا اور اسکی ماں بلانکا کی دادی کے پاس لوڈز میں ہی رہیں کیونکہ اُس کی دادی سفر کرنے سے قاصر تھی۔ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ 1940 میں اُنہیں زبردستی لوڈز یہودی بستی میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں بلانکا نے ایک بیکری میں کام کیا۔ بعد میں بلانکا اور اُس کی والدہ نے لوڈز یہودی بستی کے ایک ہسپتال میں کام کیا جہاں وہ 1944 کے آخر تک موجود رہیں اور پھر اُنہیں جرمنی میں ریونز بروئک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ ریونزبروئک کیمپ سے بلانکا اور اُس کی والدہ کو سیخسین ہاؤسن کے ذیلی کیمپ بھجوا دیا گیا۔ بلانکا کو وہاں ایک ہوابازی کی فیکٹری (اراڈو۔ ورکے) میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اُس کی والدہ کو کسی دوسرے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ سوویت فوجوں نے بلانکا کیمپ کو 1945 میں آزاد کرا لیا۔ بلانکا جو ایک ترک شدہ گھر میں رہ رہی تھی واپس لوڈز لوٹ آئی۔ وہاں اُسے معلوم ہوا کہ اُس کی والدہ سمیت کوئی بھی رشتہ دار زندہ نہیں بچا۔ بالآخر بلانکا مغرب کی جانب برلن میں بے دخل ہونے والے افراد کے ایک کیمپ میں پہنچ گئی۔ وہ 1947 میں ترک وطن کر کے امریکہ چلی آئی۔
آئٹم دیکھیںسسلی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی خاندان کے چھ بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ 1939 میں ہنگری نے چیکوسلواکیا میں سسلی کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اُن کے خاندان کے لوگوں کو قید کردیا گيا۔ جرمنوں نے ہنگری پر 1944 میں قبضہ کیا۔ سسلی اور اُن کے خاندان کے لوگوں کو ھسزٹ کی ایک یہودی بستی میں منتقل ہونا پڑا جہاں سے انھیں بعد میں آشوٹز بھجوا دیا گیا۔ سسلی اور اُن کی بہن کو جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ اُن کے خاندان کے باقی لوگوں کو کیمپ میں پہنچتے ہی گیس دیکر مار دیا گیا۔ سسلی کو کئی دوسرے کیمپوں میں منتقل کیا گيا جہاں اُنہوں نے کارخانوں میں کام کیا۔ اتحادی فوجوں نے اُنہیں 1945 میں آزاد کرایا۔ جنگ کے بعد وہ اپنے منگیتر سے دوبارہ ملیں اور اُنہوں نے شادی کر لی۔
آئٹم دیکھیںجرمنی نے سن 1939 میں پولنڈ پر حملہ کیا۔ مکاؤ پر قبضہ ہونے کے بعد سام سویت علاقہ میں بھاگ گیا۔ وہ بہم رسانی کے لئے مکاؤ واپس آیا مگر اس کو یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ سن 1942 میں اس کو Auschwitz کیمپ میں جلاوطن کردیا گیا۔ جیسے ہی سویت فوجیوں نے سن 1944 میں پیش قدمی کی، سام اور دوسرے قیدیوں کو جرمنی کے کیمپوں میں بھیج دیا گيا۔ سارے ساتھیوں کو سن 1945 میں موت مارچ کرایا گيا۔ امریکی فوجیوں نے سام کو ایک بمبار چھاپے کے دوران بھاگنے کے بعد آزاد کرایا۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںشارلین کے والد اور والدہ دونوں مقامی یہودی برادری کے راہنما تھے۔ یوں یہ خاندان برادری میں بہت فعال اور سرگرم تھا۔ شارلین کے والد لووو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی کے پولینڈ پر یکم ستمبر 1939 میں قبضے کے بعد شروع ہوئی۔ شارلین کا قصبہ پولینڈ کے اس مشرقی علاقے میں تھا جس پر سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت معاہدے کے تحت اگست 1939 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خاندان سوویت قبضے کے دوران اپنے قصبے ہی میں رہا اور وہاں شارلین کے والد مستقل پڑھاتے رہے۔ جرمنی نے سوویت یونین پر جون 1941 میں حملہ کیا اور اُن کے قصبے پر قبضے کے بعد جرمنوں نے شارلین کے والد کو گرفتار کرلیا۔ شارلین نے اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ شارلین، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن کو ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا جسے جرمنی نے ھوروخوو میں قائم کیا تھا۔ 1942 میں شارلین اور اُن کی والدہ نے جب یہ خبر سنی کہ جرمن اس یہودی بستی کو ڈھانے والے ہیں تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی بہن نے الگ چھپنے کی کوشش کی لیکن اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شارلین اور اُن کی والدہ دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں میں چھپی رہیں اور اکثر وہ لوگ پکڑے جانے سے بچنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائے رہتے تھے۔ وہ لوگ کئی دن تک چپھے رہے۔ ایک دن جب شارلین بیدار ہوئیں تو اُنہوں نے اپنی والدہ کو وہاں نہیں پایا۔ شارلین خود ھوروخو کے جنگلات میں چھپتے ہوئے بچنے میں کامیاب رہیں اور پھر سوویت فوجیوں نے اُنہیں آزاد کرایا۔ بعد میں وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںبلانکا پولینڈ کے شہر لوڈز میں ایک مربوط خاندان کی اکیلی بچی تھی۔ اس کے والد کا 1937 میں انتقال ہوگيا۔ پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد بلانکا اور اسکی ماں بلانکا کی دادی کے پاس لوڈز میں ہی رہیں کیونکہ اُس کی دادی سفر کرنے سے قاصر تھی۔ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ 1940 میں اُنہیں زبردستی لوڈز یہودی بستی میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں بلانکا نے ایک بیکری میں کام کیا۔ بعد میں بلانکا اور اُس کی والدہ نے لوڈز یہودی بستی کے ایک ہسپتال میں کام کیا جہاں وہ 1944 کے آخر تک موجود رہیں اور پھر اُنہیں جرمنی میں ریونز بروئک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ ریونزبروئک کیمپ سے بلانکا اور اُس کی والدہ کو سیخسین ہاؤسن کے ذیلی کیمپ بھجوا دیا گیا۔ بلانکا کو وہاں ایک ہوابازی کی فیکٹری (اراڈو۔ ورکے) میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اُس کی والدہ کو کسی دوسرے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ سوویت فوجوں نے بلانکا کیمپ کو 1945 میں آزاد کرا لیا۔ بلانکا جو ایک ترک شدہ گھر میں رہ رہی تھی واپس لوڈز لوٹ آئی۔ وہاں اُسے معلوم ہوا کہ اُس کی والدہ سمیت کوئی بھی رشتہ دار زندہ نہیں بچا۔ بالآخر بلانکا مغرب کی جانب برلن میں بے دخل ہونے والے افراد کے ایک کیمپ میں پہنچ گئی۔ وہ 1947 میں ترک وطن کر کے امریکہ چلی آئی۔
آئٹم دیکھیںلیھ پولینڈ کے شہر وارسا کے مضافاتی علاقے پراگ میں پلی بڑھیں۔ وہ نوجوانوں کی ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ تحریک میں سرگرم تھیں۔ جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ یہودیوں کو وارسا گھیٹو یعنی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا جسے جرمنوں نے نومبر 1940 میں بند کردیا تھا۔ اِس یہودی بستی میں لیھ ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ گروپ کے اراکین کے ساتھ رہیں۔ ستمبر 1941 میں وہ اور نوجوانوں کی تحریک کے دیگر ارکان بستی سے فرار ہو کر زیسٹوکووا۔ پولینڈ کے قریب واقع مقام زرکی میں ھا۔ شومر ھا۔ زائر زائنسٹ کے فارم پر پہنچ گئے۔ مئی 1942 میں لیھ زیر زمین تحریک کیلئے پیغام رساں بن گئیں اور اِس مقصد کے لئے وہ پولینڈ کے جعلی سفری کاغذات استعمال کرتے ہوئے کراکاؤ یہودی بستی اور قریبی پلاس زاؤ کیمپ کے درمیان سفر کرتی رہیں۔ جب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تو وہ تارناؤ بھاگ گئیں لیکن پھر جلد ہی کراکاؤ واپس لوٹ آئیں۔ لیھ نے اپنے آپ کو زیسٹوکووا اور وارسا میں پولینڈ کی ایک غیر یہودی شہری ظاہر کیا اور وہ یہودی قومی کمیٹی اور یہودی جنگی تنظیم (ZOB) کے لئے پیغام رساں کے طور پر کام کرتی رہیں۔ 1944 میں پولش وارسا بغاوت کے دوران اُنہوں نے آرمیا لوڈووا (پیپلز آرمی) میں ایک یہودی یونٹ کے ساتھ لڑائی کی۔ لیھ کو سوویت فوجوں نے آزاد کرایا۔ جنگ کے بعد اُنہوں نے پولنڈ سے لوگوں کو امیگریٹ کرنے میں مدد دی اور پھر وہ اسرائیل چلی گئیں۔ بعد میں وہ امریکہ آ کر آباد ہو گئیں۔
آئٹم دیکھیںامینویل ٹینے اور اُن کا خاندان کراکو شہر کے شمال میں ایک چھوٹے قصبے مئیخو میں رہتا تھا۔ ستمبر 1939 میں جرمنی کی طرف سے پولنڈ پر حملے کے بعد یہودیوں کی پکڑ دھکڑ اور اُن پر ظلم و ستم کا سلسلہ بڑھ گیا۔ جرمنوں نے مئیخو میں ایک یہودی بستی قائم کی۔ امینویل کو مجبوراً اس بستی میں رہنا پڑا۔ امینویل، اُن کی والدہ اور اُن کی بہن 1942 میں اِس بستی کے تباہ ہونے سے پہلے وہاں سے بھاگ گئے۔ وہ ایک گرجا گھر میں پولنڈ کی ایک خفیہ تنظیم کے ارکان کے ساتھ ایک جعلی شناخت کے ساتھ رہے۔ امینویل نے یہ گرجا گھر تقریبا ایک سال کے بعد اس وقت چھوڑ دیا جب ایک ٹیچر نے اُن پر یہودی ہونے کا شک کرنا شروع کیا ۔ اُس کے بعد امینویل وارسا اور کراکو میں اشیاء کی اسمگلنگ کے کام میں شامل ہوگئے۔ وہ 1943 کے موسم خزاں میں ہنگری بھاگ گئے۔ 1944 میں ہنگری پر جرمنی کے قبضے کے بعد امینویل نے دوبارہ بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ پکڑے گئے اور اُنہیں قید کردیا گیا۔ وہ جنگ سے زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔
آئٹم دیکھیںپاؤلا لوڈز میں مقیم ایک یہودی مذہبی خاندان میں پیدا ہونے والے چار بچوں میں سے ایک تھی۔ لوڈز ایک بڑا صنعتی شہر ہے جہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ پاؤلا نے اپنے بچپن میں سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور وہ ہفتے میں تین دن گھر پر یہودی تعلیم کی ٹیوشن لیتی تھی۔ اُس کے والد ایک فرنیچر کی دکان کے مالک تھے۔
1933-39: میرے بھائیوں، بہنوں اور میں نے اپنے یہودی گروپ گارڈونیا کے کلب ھاؤس میں کافی وقت گزارا۔ ہمارا گروپ انسانی اقدار، یہودی شخصی مزدوری اور فلسطین میں یہودی مملکت کی تشکیل میں یقین رکھتا تھا۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے کام کرنا بہت پسند تھا۔ میں نے اون کی بنائی کی، کروشیا اور سلائی کا کام کیا۔ ستمبر 1939 میں جب میں سکنڈری اسکول میں تھی تو میری پڑھائی اُس وقت ختم ہو گئی جب جرمنی نے پولنڈ پر حملہ کردیا اور 8 ستمبر کو لوڈز پر قبضہ کر لیا۔
1940-44: 1940 کے اوائل میں ہمارے خاندان کو زبردستی لوڈز یہودی بستی یعنی گھیٹو میں منتقل کر دیا گيا جہاں ہم چھ افراد کو رہنے کیلئے صرف ایک کمرہ دیا گيا۔ خوراک بڑا مسئلہ تھی۔ میں خواتین کے کپڑوں کے جس کارخانے میں کام کرتی تھی وہاں مجھے کم از کم لنچ کیلئے کچھ سوپ مل جاتا تھا۔ لیکن ہمیں اپنے چھوٹے بھائی کے خوراک کی سخت ضرورت تھی جو بہت بیمار تھا اور جسے اندرونی طور پر خون رسنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اپنے کارخانے کی کھڑکی سے میں نے باہر آلوؤں کا کھیت دیکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر پکڑی گئی تو مجھے گولی مار دی جائے گی، میں ایک رات رینگتے ہوئے کھیت میں پہنچی اور زمین کھود کر جتنے ممکن تھے میں نے آلو اکٹھے کئے اور واپس گھر بھاگ آئی۔
1944 میں پاؤلا کو جرمنی کے شہر بریمن میں جبری مزدور کے طور پر منتقل کر دیا گیا۔ 1945 میں اُنہیں برگن بیلسن کیمپ میں آزاد کرا لیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ نقل مکانی کر کے امریکہ آ گئیں۔
آئٹم دیکھیںنینی شمالی جرمنی کے ایک چھوٹے قصبے شلاوے میں رہائش پزیر یہودی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چار بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ اُس کے والد اِس قصبے کی فلور مِل کے مالک تھے۔ نینی کا عبرانی نام نوکا رکھا گیا۔ وہ اِس مِل کے وسیع علاقے میں موجود ایک گھر میں پلی بڑی جو پھلوں کے باغیچوں اور ایک وسیع و عریض باغ سے گھرا ہوا تھا۔ 1911 میں نینی نے آرتھر لیون سے شادی کرلی۔ اُنہوں نے ملکر اپنے دو بچوں لُڈوک اور اُرسلا کی پرورش کی۔
1933-39: میری بیوہ ماں اور میں برلن منتقل ہوگئے ہیں۔ ہم شلاوے میں سام دشمنی بڑھ جانے سے خوفزدہ تھے لہذا یہودی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اُمید تھی کہ ہم اس بڑے شہر میں کم نمایاں رہیں گے۔ ہم اپنی بہن کے گھر کی نچلی منزل میں رہتے ہیں۔ میری بہن نے ایک پروٹسٹنٹ سے شادی کر لی ہے اور اپنا مذھب تبدیل کرلیا ہے۔ ہمارے وہاں آباد ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جرمنوں نے یہودیوں کی نقل و حرکت محدود کر دی۔ لہذا ہم گھر سے باہر اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
1940-44: مجھے اور میری ماں کو ڈی پورٹ کر کے بوہیمیا کے تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں بھیج دیا گیا ہے۔ ہمیں رہنے کیلئے دوسری منزل پر ایک ایسا گھر دیا گیا ہے جو نہایت ہی گندا ہے اور یہاں بہت بھیڑ بھی ہے۔ پھر اِس میں کھٹمل اور جوویں بھی بہت ہیں۔ چولہا لکڑی کے برادے سے جلتا ہے ۔ میں ہمارے کمرے میں سب سے چھوٹی ہوں اور میری عمر 56 سال ہے۔ میں برادے کے تھیلے اپنی پیٹھ پر لاد کر لے جاتی ہوں۔ میں روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہوں۔ مجھے اب سنائی بھی کم دے رہا ہے اور چلنے کیلئے مجھے چھڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج علی الصبح مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں اُن لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں جنھیں کسی دوسرے کیمپ میں لے جایا جارہا ہے۔ میں جانا نہیں چاہتی مگر بے بس ہوں۔
نینی کو 15 مئی 1944 کو ڈی پورٹ کر کے آشوٹز بھجوا دیا گيا اور وہاں پہنچتے ہی اس کو زہریلی گیس سے مار دیا گيا۔ وہ 56 سال کی تھی۔
آئٹم دیکھیںلیتھوانیا کا وہ گاؤں جہاں ڈیوڈ پلے بڑھے، لیٹویا کی سرحد کے قریب تھا۔ اُن کے والد ایک پھیری والے تھے۔ 6 سال کی عمر میں ڈیوڈ کو اکمرج بھیج دیا گیا۔ یہودی اِس قصبے کو اِس کے روسی نام ولکومیر کے حوالے سے جانتے تھے۔ ڈیوڈ کو وہاں کی یہودی اکادمی میں روایتی یہودی کتب کے مطالعے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ چھ سال کے بعد ڈیوڈ کو گھر واپس بلا لیا گیا تاکہ وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد سیلزنک خاندان کی سربراہی کا چارج سنبھالیں۔
1933-39: 1933 میں میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا لہذا میں لیتھوانیا کو چھوڑ کر امریکہ چلا آیا اور پھر پرتگال چلا گيا۔ لیکن 1936 میں بالتک ریاستوں کو اسٹالن اور ہٹلر سے خطرہ تھا لہذا میں نے اپنی والدہ اور بہنوں کی مدد کیلئے واپس گھر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میری والدہ اور بہنیں کوونو شہر منتقل ہو چکی تھیں۔ ہمارے سامنے جنگ کا خطرہ تھا لیکن یہودی وہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔ اپنے کاروباری رابطوں کے ذریعے مجھے دفتری سامان کے ایک ریٹیل اسٹور میں ملازمت مل گئی۔
1940-44: 941 کے موسم گرما میں جرمنوں نے کوونو پر قبضہ کرلیا اور ہمیں زبردستی ایک یہودی بستی میں بھیج دیا گيا۔ 1943 میں حالات زیادہ خراب ہوگئے۔ یہودی بستی یعنی گھیٹو میں یہودیوں کے قتل کے اقدامات مارچ 1944 میں بہت بڑھ گئے۔ میں نے کجھ یوکرینین اور لیتھوانین لوگوں کو نازیوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بچوں کو ایک عمارت کی سب سے اوپر والی منزل پر لے جاتے اور وہاں کھڑکی سے ان کو نیچے گارڈ کی طرف پھینک دیتے جو نیچے سڑک پر کھڑا ہوتا۔ گارڈ اُنہیں اُٹھاتا اور اُن کے سر اُس وقت تک دیوار سے ٹکراتا رہتا جب تک کہ وہ مر نہ جاتے۔
ڈیوڈ 1944 میں ایک گاڑی سے اُس وقت بھاگ نکلے جب وہ گھیٹو سے روانہ ہو رہی تھی۔ وہ تین ہفتوں تک ایک قریبی جنگل میں چھپے رہے یہانتک کہ وہ علاقہ آزاد ہو گیا۔ وہ 1949 میں نکل مکانی کر کے امریکہ چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںفیگا اپنے شوہر ویلویل اور تین بچوں کے ساتھ کالوسزن میں رہتی تھیں۔ وارسا سے 35 میل مشرق میں واقع اِِس چھوٹے سے قصبے کی بیشتر آبادی یہودیوں پر مشتمل تھی۔ کیسیلنکی خاندان مذہبی تھا اور وہ گھر میں یدش زبان بولتا تھا۔ فیگا ایک گھریلو خاتون تھیں۔ اُن کے شوہر ایک تاجر تھے جو کاروباری سرگرمیوں کیلئے اکثر گھوڑے یا ویگن پر وارسا جایا کرتے تھے۔ <:P> 1933-1939 جرمنی نے حال ہی میں پولینڈ پر حملہ کر دیا ہے اور کئی روز پہلے جرمن فوجوں نے یہاں کالوسزن کے محاذ پر پولش فوجیوں کے خلاف جنگ لڑی تھی جس کے نتیجے میں بمباری کی وجہ سے میرے گھر سمیت آدھا شہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ لہذا ہمیں یہ علاقہ چھوڑ دینا پڑا اور ہم اِس شہر کے مضافات میں ویلویل کے کزن موجزے کے محلے میں منتقل ہو گئے۔ جرمن فوجی اب کالوسزن میں ہیں اور نازی دوسرے شہروں سے سینکڑوں یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کر رہے ہیں۔ لہذا یہاں موجود خاندانوں کو دوسرے خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دینا پڑی۔
1940-44: کالوسزن میں حالات بدستور خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں یہودی بستی یعنی گھیٹو کو نازیوں نے حال ہی میں بند کر دیا ہے اور یہاں لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ہمارے لئے اپنے بھرے پرے گھروں کو ٹائفس جیسی مہلک بیماری کے جراثیم کی حامل جوؤں سے صاف رکھنا مشکل ہے اور میرا 21 سالہ بیٹا اسرائیل یتزک پہلے ہی بخار کا شکار ہو چکا ہے۔ میں اس کی طرف سے خائف ہوں۔ وہ پہلے ہی بھوک سے کمزور ہوچکا ہے اور یہاں دوا بھی بہت کم دستیاب ہے۔ میں اُس کی ممکن حد تک بہترین دیکھ بھال کر رہی ہوں۔
فیگا کا بیٹا ٹائفس بخار سے مر گيا۔ 1942 کے آخر میں نازیوں نے کالوسزن کو بند کر دیا اور گھیٹو میں موجود بیشتر افراد کو ٹریبلنکا کی قتل گاہ میں منتقل کر دیا۔ چون سالہ فیگا بھی ہلاک ہوگئیں۔
آئٹم دیکھیںانگے برتھولڈ اور ریجائنا اوئربیخر کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ یہ مذہبی یہودی خاندان کپن ھائم میں رہتا تھا۔ کپن ھائم جنوب مغربی جرمنی میں بلیک فارسٹ کے قریب واقع ایک گاؤں تھا۔ اُن کے والد ٹیکسٹائل کے تاجر تھے۔ یہ خاندان ایک بہت بڑے گھر میں رہتا تھا جس میں 17 کمرے تھے اور گھر کے کام کاج کیلئے ملازم بھی موجود تھے۔
1933-39: 10 نومبر1938 کو غنڈوں نے ہمارے گھر کی تمام کھڑکیوں کو پتھراؤ کر کے توڑ دیا۔ اُسی روز پولیس نے میرے والد اور دادا کو گرفتار کر لیا۔ میری والدہ، میری دادی اور خود میں ایک شیڈ میں اُس وقت تک چھپے رہے جب تک خاموشی نہیں ہو گئی۔ جب ہم باہر نکلے تو یہودی مردوں کو ڈاخو کے حراستی کیمپ میں لے جایا جا چکا تھا۔ میرے والد اور دادا کو چند ہفتوں بعد واپس گھر آنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اُسی سال مئی میں میرے دادا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
1940-45: جب میری عمر سات برس تھی مجھے میرے والدین کے ساتھ چیکوسلواکیہ میں تھیریسئن شٹٹ گھیٹو منتقل کر دیا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے تمام چیزیں لے لی گئیں۔ صرف وہ کپڑے ہمارے پاس رہے جو ہم نے پہنے ہوئے تھے۔ میری گڑیا مارلین بھی میرے پاس رہی۔ کیمپ کے حالات بہت ہی خراب تھے۔ آلو بھی ہیروں کی طرح قیمتی تھے۔ میں زیادہ تر بھوکی، خوفزدہ اور بیمار رہی۔ میری آٹھویں سالگرہ کے موقع پر میرے والدین نے مجھے آلوؤں کا ایک چھوٹا سا کیک دیا جس میں چینی برائے نام ہی استعمال ہوئی تھی۔ میری نویں سالگرہ پر مجھے کپڑوں کے چیتھڑوں سے سلا ہوا میری گڑیا کا لباس ملا اور میری دسویں سا؛لگرہ پر میری والدہ نے تحفے کے طور پر ایک نظم لکھی۔
8 مئی 1945 کو انگے اور اُن کے والدین کو ٹھیریسئن شٹٹ گھیٹو سے آزاد کر دیا گیا جہاں اُنہوں نے تین برس گزارے تھے۔ مئی 1946 میں وہ ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔
آئٹم دیکھیںایلس کا پورا نام ایلس ہرز تھا اور وہ ساحلی شہر ہیمبرگ میں ایک یہودی خاندان کے تین بچوں میں سے ایک تھی۔ اُن کے والد کا اناج کی درآمد و برآمد کا کاروبار تھا۔ جب ایلس بچہ تھیں تو وہ لڑکیوں کے ایک نجی اسکول میں پڑھتی تھیں۔ 1913 میں اُنہوں نے فرٹز روزن برگ سے شادی کی اور وہ گوئٹنگن منتقل ہو گئے جہاں اُن کے تین بچے ہوئے۔
1933-39: 1930 میں کساد بازاری کے آغاز پر ایلس کے شوہر کی لینن فیکٹری خسارے میں چلی گئی۔ جب 1933 میں نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو اُنہوں نے روزن برگ فیکٹری ضبط کر لی۔ اپنے روزگار سے محروم ہونے پر اِس خاندان کو اُن کے گھر سے نکال دیا گیا۔ وہ واپس ہیمبرگ آ گئے جہاں اُن کا گزارہ رشتہ داروں کی مالی معاونت اور دو بچوں کی بطور سیلز اپرینٹس معمولی کمائی پر ہونے لگا۔
1940-43: 1941 کے آخر میں روزن برگ خاندان کو 800 میل دور مشرق میں روس کی منسک گھیٹو میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ایلس کو رات کے وقت ریل گاڑی کی پٹریوں سے برف صاف کرنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ جولائي 1942 میں جب کام کرنے والے دستوں کی گھیٹو سے روانگی ہوئی تو اسے ایس۔ ایس اہلکاروں نے گھیر لیا۔ ایلس کے دستے نے گھیٹو کی طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ تین روز تک مزدور اپنے کام کی جگہ پر روکے گئے۔ لمحہ بہ لمحہ بے اطمنانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جب انھیں لوٹنے کی اجازت دی گئی تو ایلس نے سینکڑوں لاشیں زمین پر بکھری دیکھیں۔ معجزانہ طور پر اُن کا خاندان زندہ تھا۔ تقریباً 30 ھزار لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ایلس کے بیٹے ھائینز کو ستمبر 1943 میں ٹریبلنکا کی قتل گاہ لیجایا گیا۔ دو ہفتے کے بعد گھیٹو کو ختم کر دیا گیا۔ اُس کے بعد سے ایلس اور اُن کے خاندان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
آئٹم دیکھیںفرٹز گوٹنگن کے یونیورسٹی شہر میں رہنے والے ایک یہودی خاندان کے تین بیٹوں میں سے ایک تھے۔ روزن برگ خاندان گوٹنگن شہر میں سولھویں صدی سے مقیم تھا۔ اُن کے والد کا کپڑے کا کارخانہ تھا۔ فرٹز وہاں سیلزمین کے طور پر کام کرتے رہے اور بعد اذاں اُنہوں نے اپنے بھائیوں سمیت یہ کاروبار وراثت میں حاصل کر لیا۔ 1913 میں فرٹز نے ایلسے ہرز سے شادی کی۔ 1920 کی دہائی کے آغاز تک وہ دو بیٹے اور ایک بیٹی کے باپ بن چکے تھے۔
1933-39: جرمنی میں 1933 میں نازی اقتدار میں آئے۔ ایک برس بعد روزن برگ فیکٹری پر قبضہ کر لیا گیا اور تین نازی روزن برگ خاندان کی رہائش گاہ پر آئے۔ ایک افسر نے بندوق میز پر رکھی اور فرٹز کو مطلع کیا کہ اگر وہ ایک ہفتے کے اندر گھر چھوڑ کر نہ گئے تو اُنہیں اُن کے سامان سمیت باہر پھینک دیا جائے گا۔ یہ خاندان ایک مہینے کے اندر ہیمبرگ منتقل ہو گيا۔ فرٹز کے چچا کی مدد سے یہ خاندان 1939 کے موسم خزاں میں جنگ شروع ہونے تک ہیمبرگ میں رہا۔
1940-43: نومبر 1941 میں فرٹز اور اُن کے خاندان کو ہیمبرگ کے ایک ھزار دیگر یہودیوں کے ساتھ روس کی منسک یہودی بستی میں جلاوطن کردیا گيا۔ کیمپ پہنچنے کے بعد ایس۔ ایس گارڈ ان کو ہانکتے ہوئے ایک لال اینٹوں والی عمارت کی طرف لے گئے جہاں اس خاندان نے زمین پر لاشیں بکھری ہوئی دیکھیں۔ ہیمبرگ سے آنے والوں کی آمد سے پہلے لاشوں کو عمارتوں سے باہر نکالنا پڑا اور دیواروں سے خون کے دھبے صاف کر دئے گئے۔ میزوں پر ابھی بھی بچا ہوا کھنا پڑا ہوا تھا۔ وہاں پر موجود قیدیوں نے بتایا کہ نئے آنے والوں کیلئے جگہ بنانے کی خاطر ہزاروں روسی یہودیوں کو قتل کردیا گيا تھا۔
منسک یہودی بستی کو اکتوبر 1943 میں بند کردیا گيا۔ فرٹز کی دوبارہ کوئی خبر نہیں ملی۔ اُن کے بیٹے ھائینز کو ستمبر میں ملک بدر کر دیا گيا اور وہ جنگ سے بچنے والے اپنے خاندان کے واحد فرد رہے۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.