جرمنی کے کلیدی عہدیداروں کا مقدمہ بین الاقوامی فوجی عدالت (آئی ایم ٹی) میں رسمی طور پر جرمنی کی طرف سے ہتھیار ڈال دینے کے محض چھ مہینے بعد نیورمبرگ، جرمنی میں 20 نومبر 1945 کو شروع ہوا۔ یہ عدالت جنگ کے بعد جرائم کی سماعت کیلئے سب سے زیادہ معروف عدالت ہے۔ چاروں اتحادی ممالک امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین اور فرانس میں سے ہر ایک نے اس عدالت کیلئے ایک جج اور عدالتی ٹیم فراہم کی۔ مقدمے کے ضابطے بر اعظمی اور اینگلو امریکن عدالتی نظاموں کے مابین پیچیدہ مفاہمت کے نتیجے میں وضع کئے گئے۔ ترجمانوں نے مقدمے کی تمام کارروائی کا براہ راست انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور روسی زبانوں میں ترجمہ کیا۔

بحث کے بعد نازیوں کی سفارتی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی قیادت کی نمائندگی کیلئے 24 مدعا علیہان کا انتخاب کیا گیا۔اِن میں سے صرف 21 افراد عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈولف ہٹلر، ھائنریخ ھملر اور جوزف گوئبلز نے کبھی بھی مقدمات کا سامنا نہیں کیا کیونکہ اُنہوں نے جنگ سے خاتمے سے قبل ہی خودکشی کر لی تھی۔ آٰئی ایم ٹی نے ان مدعا علیہان پر امن کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی فرد جرم عائد کی۔ آئی ایم ٹی نے انسانیت کے خلاف جرائم کی وضاحت "قتل، قتل عام، لوگوں کو غلام بنانے، جلاوطن کرنے اور سیاسی، نسلی اور مزہبی بنیادوں پر ظلم کرنے" کے حوالے سے کی۔ چوتھے الزام کا بعد میں اضافہ کیا گیا جو دوسری عالمی جنگ سے قبل نازی داخلی قوانین کے تحت روا رکھے جانے والے مظالم کا احاطہ کرتا تھا۔ مدعاعلیہان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کا وکیل مقرر کر سکیں۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران روزانہ 400 سے زائد افراد کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 325 اخباری نمائندوں نے کارروائی دیکھی۔

امریکہ کے چیف پراسی کیوٹر رابرٹ جیکسن نے عینی گواہوں کی شہادت کے بجائے خود نازیوں کی تحریر شدہ دستاویزات کے حوالے سے اس کیس کے دلائل دینے کا فیصلہ کیا۔ نیورمبرگ میں پیش کی جانے والی شہادت سے کم و بیش اُس تمام صورت حال کی وضاحت ہوئی جو ہم ہولوکاسٹ کے بارے میں پہلے ہی سے جانتے ہیں ۔ اس میں آشوٹز میں موت کی مشینری، وارسا گھیٹو کی تباہی اور موت کا شکار ہونے والے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا احوال شامل تھا۔

ججوں نے اپنا فیصلہ یکم دسمبر 1946 کو سنایا۔سزا دینے کیلئے چار میں سے تین ججوں کا فیصلہ ضروری تھا۔ بارہ مدعا علیہان کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ھرمین گوئرنگ نے خود کشی کر لی تھی۔ یوں وہ پھانسی کے پھندے سے بچ گیا۔ آئی ایم ٹی نے تین مدعا علیہان کو عمر قید اور چار کو دس سے بیس برس تک کی قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے تین مدعا علیہان کو بری کر دیا۔