وارسا کی یہودی بستی کی بغاوت کے دیکھا دیکھی دوسری یہودی بستیوں اور قتل کے مراکز میں بغاوتیں شروع ہوگئيں۔ مزاحمت کرنے والوں کو معلوم تھا کہ وہ برتر جرمن قوتوں کے خلاف جیت نہيں سکتے تھے۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔

مئی 1943 میں ٹریبلنکا جلاوطن ہونے والے یہودیوں کی آخری گیس کی ہلاکت کے بعد کیمپ میں تقریباً ایک ہزار یہودی قیدی رہ گئے تھے۔ انہیں اس بات کی خبر تھی کہ انہيں جلد ماردیا جائے گا۔ لہذا انہوں نے بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2 اگست کو بیلچوں اور ہتھیاروں کے گودام سے چرائے گئے کچھ ہتھیاروں سے مسلح ہو کر انہوں نے کیمپ کے کچھ حصے کو نذر آتس کردیا اور کیمپ کی خاردار تاروں کی باڑ توڑ کر باہر نکل آئے۔ تین سو سے قریب قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جن میں سے ایک تہائی دوبارہ پکڑے جانے سے بھی بچ گئے۔

سوبیبور کے دو مکین، الیکسینڈر پیچرسکی اور لیون فیلڈہینڈلر نے 1943 میں اس جیسی ایک بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ 14 اکتوبر کو قیدیوں نے کیمپ کے گیارہ قیدیوں کو قتل کرکے کیمپ کو آگ لگا دی۔ تین سو کے قریب قیدی فرار ہو گئے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی تلاش میں ان میں سے کئی افراد کو قتل کردیا گيا۔ جنگ کے اختتام پر صرف پچاس افراد ہی زندہ رہے۔

آش وٹز- برکناؤ میں ہدف بننے والے مقتول افراد کی لاشوں کو جلانے کے لئے مخصوص سکواڈ سونڈر کمانڈو کی طرف سے قیدیوں کو قتل کرنے کے منصوبوں کی خبر قیدیوں کو ہوئی۔ 7 اکتوبر 1944 کو ان کے ایک گروہ نے بغاوت کردی اور تین چوکیداروں کو ہلاک کرکے لاشوں کی بھٹی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ سینکڑوں قیدی فرار ہوگئے، لیکن ان میں سے زيادہ تر کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیا گيا۔ دھماکہ خیز مواد فراہم کرنے کے الزام میں چار خواتین کو باقی رہائشیوں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ان میں سے ایک تئیس سالہ روزا روبوٹا نے ٹریپ ڈور کے کھلنے کے ساتھ آواز لگائی "بہادر بنو، مضبوط رہو"۔

اہم تواریخ

2 اگست1943
ٹریبلنکا میں بغاوت

1943 کے آغاز میں ٹریبلنکا قتل کے مرکز میں قیدیوں کو جلا وطن کرنے کے سلسلے ختم ہو گئے۔ مارچ میں جرمنوں نے ٹریبلنکا میں ایکٹیون 1005 شروع کردیا۔ ایکٹیون 1005 جرمنوں کے اجتماعی قتل کے تمام ثبوت مٹانے کے منصوبے کا خفیہ نام تھا۔ قیدیوں کو اجتماعی قبریں کھول کر لاشوں کو جلانے پر مجبور کیا گیا۔ جب ایکٹیون اپنے اختتام پر پہنچنے لگا تو قیدیوں کو ڈر لگنے لگا کہ انہيں قتل کر کے کیمپ کو ختم کردیا جائے گا۔ کیمپ میں مزاحمتی تحریک کے لیڈروں نے بغاوت کا فیصلہ کرلیا۔ 2 اگست 1943 کو قیدیوں نے خاموشی سے کیمپ کے اسلحہ خانے سے اسلحہ چرایا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کیمپ پر قبضہ کرسکیں، وہ پکڑے گئے۔ سینکڑوں قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش میں مرکزی گیٹ پر ہلہ بول دیا۔ ان میں سے کئی کو مشین گنوں سے ہلاک کردیا گيا۔ 300 سے زائد افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بیشتر کو دوبارہ پکڑلیا گیا اور ان کو جرمن پولیس اور فوجیوں نے ہلاک کردیا۔ بغاوت کے دوران قیدیوں نے کیمپ کے بیشتر حصے کو نذر آتش کردیا۔ زندہ بچنے والے قیدیوں کو کیمپ کی موجودگی کی بقیہ تمام نشانیاں مٹانے پر مجبور کردیا گیا۔ اس کے بعد ان کو بھی گولی ماردی گئي۔ ٹریبلنکا کو آخرکار 1943 کے موسم خزاں میں ختم کردیا گیا۔ وہاں 8 لاکھ 70 ہزار سے 9 لاکھ 25 ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

14 اکتوبر 1943
سوبیبور کی بغاوت

1942 کے موسمِ خزاں میں سوبیبور کے قتل کے مرکز میں ایکٹیون 1005 پر عملدرامد کیا گیا۔ 1943 کے آغاز میں، سوبیبور میں جلاوطنیاں ختم ہوگئيں اور قیدیوں کو شک ہونے لگا کہ انہيں جلد ہی ماردیا جائے گا اور کیمپ کو ختم کردیا جائے گا۔ قیدیوں نے 1943 کے آغاز میں مزاحمتی نیٹ ورک قائم کیا۔ انہوں نے بغاوت اور کیمپ سے اجتماعی فرار کی منصوبہ بندی کرنا شروع کردی۔ 14 اکتوبر 1943 کو قیدیوں نے بغاوت شروع کردی اور خاموشی سے جرمن اور یوکرینین محافظوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ محافظوں نے گولیاں چلانی شروع کردیں اور قیدیوں کو مرکزی اخراج تک پہنچے سے روک دیا، جس کی وجہ سے وہ مائن فیلڈ سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ تین سو کے قریب قیدی فرار ہوگئے؛ ان میں سے ایک سو کو دوبارہ پکڑ کر گولی مار کر ہلاک کردیا۔ بغاوت کے بعد، سوبیبور کو بند کردیا گيا اور اسے ختم کردیا گیا۔ کل ملا کر، سوبیبور میں تقریبا ایک لاکھ 67 ہزار افراد مارے گئے۔

7 اکتوبر 1944
اوش وٹز میں سونڈرکومینڈو کی بغاوت

1944 میں موسم سرما کے دوران، ہنگری سے 4 لاکھ 40 ہزار یہودیوں کی آمد کے بعد اوش وٹز میں گیس کے ذریعے ہلاکت کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ قتل کے علاقے میں کام کرنے والے خاص قیدیوں کے دستے (جنہيں سونڈر کومینڈو کہا جاتا تھا) کو گیس سے ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ نمٹنے کے لئے بڑھا دیا گيا۔ تاہم 1944 میں خراں کے موسم تک ان دستوں کی تعداد دوبارہ کم کردی گئی۔ سونڈرکومینڈو کے ممبران نے قتل کئے جانے کے ڈر سے بغاوت اور فرار ہونے کی منصوبہ بندی کی۔ بغاوت کے اس منصوبے میں ان زنانہ قیدیوں کا تعاون بھی شامل تھا، جو سونڈرکومینڈو کے ممبران کو چپکے سے قریبی فیکٹریوں سے بندوق کا پاؤڈر فراہم کیا کرتی تھیں۔ 7 اکتوبر 1944 کو سونڈرکومینڈو کی قیدیوں کی بغاوت میں لاشیں جلانے کی بھٹیوں کو دھماکوں سے اڑادیا گيا، جس میں ایس ایس کے متعدد محافظ بھی مارے گئے۔ اس بغاوت کو کیمپ کے محافظوں نے جلدی ہی دبا دیا۔ سونڈر کومینڈو کے تمام ممبران جاں بحق ہوگئے۔ فیکٹری سے بندوق کا پاؤڈر چرانے والی چار خواتین کو کیمپ کی رہائی سے کچھ ہفتے قبل 6 جنوری 1945 کو پھانسی دے دی گئی۔

17 جنوری 1945
چیلمنو

چیلمنو پہلے مارچ 1943 میں بند ہوگیا، لیکن اسے لوڈز کی یہودی بستی کے ختم کئے جانے کے عمل میں مدد فراہم کرنے کے لئے جون 1944 کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ قتل کے واقعات جولائی 1944 کے وسط تک جاری رہے۔ ستمبر 1944 سے یہودی قیدیوں کو اجتماعی قتل کے تمام ثبوت مٹانے کے لئے بنائے گئے جرمن منصوبے ایکٹیون 1005 کے حصے کے طور پر چیلمنو میں واقع اجتماعی قبروں سے لاشوں کو نکال کر انہيں جلانے پر مجبور کیا گيا۔ جس رات سوویت فوج چیلمنو مرکز کے جانب بڑھ رہی تھی جرمنوں نے کیمپ کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ جانے سے پہلے، جرمنوں نے بقیہ یہودی قیدیوں کو مارنا شروع کردیا۔ کچھ قیدی مزاحمت کرکے فرار ہوگئے۔ تین قیدی زندہ بچ گئے۔ چیلمنو میں کم از کم ایک لاکھ 52 ہزار افراد مارے گئے۔